Sheikh Ibrahim Zauq

شیخ ابراہیم ذوقؔ

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور ملک الشعرا۔ غالب کے ساتھ ان کی رقابت مشہور ہے

Poet laureate of the Mughal Court and mentor of Bahadur Shah Zafar. His 'poetic' rivalry with Ghalib is well known.

شیخ ابراہیم ذوقؔ کی غزل

    بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر

    بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر ایماں یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر اے آہ کہہ دے تیر کا نامہ نکال کر اترے گا ایک جام بھی پورا نہ چاک سے خاک دل شکستہ نہ صرف کلال کر لے کر بتوں نے جان جب ایماں پہ ڈالا ہاتھ دل کیا کنارے ہو گیا سب کو ...

    مزید پڑھیے

    مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا

    مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا دہان زخم سے خوں ہو کے حرف آرزو نکلا مرا گھر تیری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا پھرا گر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم وہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے

    کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے نہ دے شراب ڈبو کر کوئی کباب تو دے بجھے گا سوز دل اے گریہ پل میں آب تو دے دگر ہے آگ میں دنیا یوں ہی عذاب تو دے گزرنے گر یہ مرے سر سے اتنا آب تو دے کہ سر پہ چرخ بھی دکھلائی جوں حباب تو دے ہزاروں تشنہ جگر کس سے ہوئیں گے سیراب خدا کے واسطے تیغ ستم کو ...

    مزید پڑھیے

    دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے

    دکھلا نہ خال ناف تو اے گل بدن مجھے ہر لالہ یاں ہے نافۂ مشک ختن مجھے ہمدم وبال دوش نہ کر پیرہن مجھے کانٹا سا ہے کھٹکتا مرا تن بدن مجھے پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے زنجیر پا ہے موج نسیم چمن مجھے تسبیح دور بزم میں دیکھو امام کو بخشی ہے حق نے زیب سر انجمن مجھے اے میرے یاسمن ...

    مزید پڑھیے

    زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے

    زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے وہ خلق سے پیش ...

    مزید پڑھیے

    کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے

    کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے ان کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے چاہیں گر چارہ جراحت کا محبت والے بیچیں الماس و نمک سنگ جراحت والے گئے جنت میں اگر سوز محبت والے تو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے ساقیا ہوں جو صبوحی کی نہ عادت والے صبح محشر کو بھی اٹھیں نہ ترے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو

    ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو اک نظر دل سے ادھر دیکھ لو گر دیکھتے ہو ہے دم باز پسیں دیکھ لو گر دیکھتے ہو آئینہ منہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو ناتوانی کا مری مجھ سے نہ پوچھو احوال ہو مجھے دیکھتے یا اپنی کمر دیکھتے ہو پر پروانہ پڑے ہیں شجر شمع کے گرد برگ ریزی محبت کا ...

    مزید پڑھیے

    برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی

    برق میرا آشیاں کب کا جلا کر لے گئی کچھ جو خاکستر بچا آندھی اڑا کر لے گئی اس کے قدموں تک نہ بیتابی بڑھا کر لے گئی ہائے دو پلٹے دئیے اور پھر ہٹا کر لے گئی ناتوانی ہم کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا کر لے گئی چیونٹی سے چیونٹی دانہ چھڑا کر لے گئی صبح رخ سے کون شام زلف میں جاتا تھا آہ اے دل شامت ...

    مزید پڑھیے

    لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے

    لیتے ہی دل جو عاشق دل سوز کا چلے تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے تم چشم سرمگیں کو جو اپنی دکھا چلے بیٹھے بٹھائے خاک میں ہم کو ملا چلے دیوانہ آ کے اور بھی دل کو بنا چلے اک دم تو ٹھہرو اور بھی کیا آئے کیا چلے ہم لطف سیر باغ جہاں خاک اڑا چلے شوق وصال دل میں لیے یار کا چلے غیروں کے ...

    مزید پڑھیے

    بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی

    بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی سنگ پر سنگ ہر اک کوچہ میں کھائے تو سہی پر بلا سے ترے دیوانے کھائے تو سہی گو جنازے پہ نہیں قبر پہ آئے وہ مری شکوہ کیا کیجے غنیمت ہے کہ آئے تو سہی کیونکہ دیوار پہ چڑھ جاؤں کوئی کہتا ہے پاؤں کاٹوں گا انگوٹھا وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4