خوف اک دل میں سمایا لرز اٹھا کاغذ
خوف اک دل میں سمایا لرز اٹھا کاغذ کانپتے ہاتھوں سے ظالم نے جو موڑا کاغذ نہ تو نیلا نہ تو پیلا نہ تو اجلا کاغذ چاہئے ان کے تلون کو ترنگا کاغذ صفحۂ دل پہ نظر آتے ہیں اب داغ ہی داغ گود ڈالا کسی کمبخت نے سارا کاغذ باغباں کے ستم و جور جو لکھتے بیٹھے لگ گیا رم کا رم اور دستہ کا دستہ ...