Shaukat Thanvi

شوکت تھانوی

شوکت تھانوی کی غزل

    سچ ہے ان کو مجھ سے کیا اور میرے افسانے سے کیا

    سچ ہے ان کو مجھ سے کیا اور میرے افسانے سے کیا کر دیا دیوانہ تو اب کام دیوانے سے کیا عشق کا عالم جدا ہے حسن کی دنیا جدا مجھ کو آبادی سے کیا اور تم کو ویرانے سے کیا میری حیرت اس طرف ہے تیری غفلت اس طرف دیکھیے دیوانہ اب کہتا ہے دیوانے سے کیا شمع کی لو ہے تو اس کا رخ بھی ہے سوئے ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا

    حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا مرا دل تیرا جلوہ تھا ترا جلوہ مرا دل تھا ہوا نظارہ لیکن یوں کہ نظارہ بھی مشکل تھا جہاں تک کام کرتی تھیں نگاہیں طور حائل تھا رہا جان تمنا بن کے جب تک جان مشکل تھا نہ تھی مشکل تو اس کے بعد پھر کچھ بھی نہ تھا دل تھا نظر بہکی حجاب اٹھا ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    اگر غم تیرا غم ہے تو کوئی غم سے رہا کیوں ہو

    اگر غم تیرا غم ہے تو کوئی غم سے رہا کیوں ہو جسے حاصل ہو تیرا قرب وہ تجھ سے جدا کیوں ہو یہ ہستی و عدم کیوں ہو فنا کیوں ہو بقا کیوں ہو تمہیں تم ہو تو پھر دل میں خیال ماسوا کیوں ہو وفا میں ہے وفائی ہے وفائی میں وفا کیسی وفا ہو تو جفا کیوں ہو جفا ہو تو وفا کیوں ہو نتیجہ کچھ نہیں ہے شمع ...

    مزید پڑھیے

    رسوا بقدر ذوق تمنا نہیں ہوں میں

    رسوا بقدر ذوق تمنا نہیں ہوں میں اپنے عروج پر ابھی پہونچا نہیں ہوں میں نیرنگ قید ہستیٔ فانی نہ پوچھئے مرتا ہوں روز اور کبھی مرتا نہیں ہوں میں تاثیر ہی بیاں میں نہ ہو جب تو کیا کروں کیا اپنا حال ان کو سناتا نہیں ہوں میں جو مجھ کو دیکھتے ہیں تجھے دیکھتے ہیں وہ شاید تری نگاہ کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2