ہر برے وقت میں کام آیا تھا
ہر برے وقت میں کام آیا تھا اگلے وقتوں کا وہ ہم سایہ تھا آئنے میں تھا وہ کس کا چہرہ میں جسے دیکھ کے شرمایا تھا گر گیا آج وہ بوڑھا برگد میرے آنگن کا جو سرمایہ تھا اہل زر سے بھی خریدا نہ گیا مایۂ ناز وہ بے مایہ تھا
شاعر،ادیب ،صحافی،نغمہ نگار، غلام بیگم بادشاہ اور جھانسی کی رانی جیسی فلموں کے مکالمہ نگار
Poet, Journalist and lyricist, Dialogue writer of films like ‘’Ghulam Begam Badshah’’ and ‘’Jhansi ki rani’’
ہر برے وقت میں کام آیا تھا اگلے وقتوں کا وہ ہم سایہ تھا آئنے میں تھا وہ کس کا چہرہ میں جسے دیکھ کے شرمایا تھا گر گیا آج وہ بوڑھا برگد میرے آنگن کا جو سرمایہ تھا اہل زر سے بھی خریدا نہ گیا مایۂ ناز وہ بے مایہ تھا
غم کی اندھیری راہوں میں تو تم بھی نہیں کام آؤ ہو کیوں بے کار کرو ہو حجت آگے بات بڑھاؤ ہو کیوں تھم تھم کر قدم رکھو ہو کیوں اتنا گھبراؤ ہو رات کا سناٹا ہے میں ہوں تم کس سے شرماؤ ہو آؤ اپنے ہاتھ میں لے کر ہاتھ ہمارا دیکھو تو ہم نے سنا ہے تم سب کی قسمت کا حال بتاؤ ہو پہلے پہر جب آ نہ ...
ایک وحشت ہے رہ گزاروں میں قافلے لٹ گئے بہاروں میں ساز خاموش آرزو بیمار کوئی نغمہ نہیں ہے تاروں میں اس طرف بھی نگاہ دزدیدہ ہم بھی ہیں زندگی کے ماروں میں یہ تو اک اتفاق ہے ورنہ آپ اور میرے غم گساروں میں آدمی آدمی نہ بن پایا بستیاں لٹ گئیں اشاروں میں دیکھ کر وقت کے تغیر کو چاند ...
حسرتیں بن کر نگاہوں سے برس جائیں گے ہم ایک دن آئے گا جب ان کو بھی یاد آئیں گے ہم چاندنی بن کر کبھی دامن پہ لہرائیں گے ہم بن کے آنسو گاہ پلکوں پر ٹھہر جائیں گے ہم شام کو جام مسرت بھر کے چھلکائیں گے ہم صبح کو دور چراغ بزم بن جائیں گے ہم پھر کہاں پائیں گے ہم کو نو عروسان چمن جب فضائے ...
پھر کوئی جشن مناؤ کہ ہنسی آ جائے گیت اک ایسا سناؤ کہ ہنسی آ جائے دم گھٹا جاتا ہے اس رات کی تاریکی میں کوئی بستی ہی جلاؤ کہ ہنسی آ جائے تم تو بے لوث ہو مخلص ہو کرم فرما ہو اتنے نزدیک نہ آؤ کہ ہنسی آ جائے کام کرنا ہے تو میدان میں آؤ شوکتؔ اس طرح بیٹھ نہ جاؤ کہ ہنسی آ جائے
نظر نواز نظاروں کی یاد آتی ہے شکستہ دل کے سہاروں کی یاد آتی ہے کبھی نگاہ محبت نے جس کو چھیڑا تھا اب ان رباب کے تاروں کی یاد آتی ہے نگاہ پڑتی ہے جب بھی کسی شگوفے پر تمہارے ساتھ بہاروں کی یاد آتی ہے جو مل کے چھوٹ گئے زندگی کی راہوں میں اب ان حسین سہاروں کی یاد آتی ہے مچلتی آرزؤں ...
مجھ کو جہاں میں کوئی دل آرا نہیں ملا میں خود بھی اپنے غم کا شناسا نہیں ملا اپنی طلب کے اپنی غرض کے ملے ہیں لوگ میری طلب کو دیکھنے والا نہیں ملا پھرتا رہا ہوں کوئے وفا میں تمام عمر لیکن کہیں بھی کوئی شناسا نہیں ملا میرے عیوب پر رہی ہر شخص کی نگاہ کوئی ہنر کو دیکھنے والا نہیں ...
میرے محبوب مرے دل کو جلایا نہ کرو ساز چھیڑا نہ کرو گیت سنایا نہ کرو جاؤ آباد کرو اپنی تمناؤں کو مجھ کو محفل کا تماشائی بنایا نہ کرو میری راہوں میں جو کانٹے ہیں تو کیوں پھول ملیں میرے دامن کو الجھنے دو چھڑایا نہ کرو تم نے اچھا ہی کیا ساتھ ہمارا نہ دیا بجھ چکے ہیں جو دیے ان کو ...
زندگی کا سفر ختم ہوتا رہا تم مجھے دم بہ دم یاد آتے رہے میری ویران پلکوں پہ دن ڈھلتے ہی کچھ ستارے مگر جگمگاتے رہے لٹ گئی زندگی بجھ گئے دیپ بھی دور تک پھر نہ باقی رہی روشنی اس اندھیرے میں بھی ہم تری یاد سے اپنی ویران محفل سجاتے رہے تم سے بچھڑے ہوئے ایک مدت ہوئی دن گزرتا رہا وقت ...
رات تاروں سے جب سنورتی ہے اک نئی زندگی ابھرتی ہے موج غم سے نہ ہو کوئی مایوس زندگی ڈوب کر ابھرتی ہے آج دل میں پھر آرزوئے دید وقت کا انتظار کرتی ہے دل جلے یا دیا جلے شوکتؔ رات افسانہ کہہ گزرتی ہے