شمشیر خان کی غزل

    کچھ ووٹ کمانے کی خاطر کیا خون بہانہ لازم ہے

    کچھ ووٹ کمانے کی خاطر کیا خون بہانہ لازم ہے جب بات امن کی ہو ہر سو کیا بات بڑھانا لازم ہے تم اہل سیاست کیا جانو ہم اہل قلم کے جذبوں کو جو خون جگر سے لکھ دیں تو سب کا گھبرانا لازم ہے اخبار تو جھوٹے ہیں اکثر یہ ہم کو کیا سمجھائیں گے کب کس کو اٹھانا بہتر ہے کب کس کو گرانا لازم ...

    مزید پڑھیے

    یہ سچ ہے بکواس نہیں ہے

    یہ سچ ہے بکواس نہیں ہے وہ اب دل کے پاس نہیں ہے وہ بھوکے ہیں نام کے خاطر کام کی ان کو پیاس نہیں ہے غالب ہے اب دور جہالت بچوں سے کچھ آس نہیں ہے بھوک چھپی ہے پیٹ کے بھیتر چہرے پر افلاس نہیں ہے وہ کہتے ہیں خوب ہے دنیا ہم کہتے ہیں خاص نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    تاج مانگوں نہ خزانہ چاہیے

    تاج مانگوں نہ خزانہ چاہیے سو سکوں جس پر بچھونا چاہیے شعر کہنے میں برائی کچھ نہیں بس نیا انداز ہونا چاہیے بات ایسی ہو کہ دل کو چیر دے سن کے ظالم کو بھی رونا چاہیے گھر کے باہر کھیلتے تھے سب کبھی اب تو گھر میں ایک کونا چاہیے کس طرح شمشیرؔ سب سے یہ کہے رزق جتنا دل بھی اتنا چاہیے

    مزید پڑھیے

    کورا کاغذ اداس ہے شاید

    کورا کاغذ اداس ہے شاید اس کو لفظوں کی آس ہے شاید آج دریا کی ہے طلب مجھ کو ایک مدت کی پیاس ہے شاید جان اس نے خوشی سے دے ڈالی اس کا قاتل بھی خاص ہے شاید زہر پیتے ہیں ہاتھ سے اس کے اس کے لب پر مٹھاس ہے شاید جان ہتھیلی پہ تھی مری کل تک جان اب تیرے پاس ہے شاید شعر شمشیرؔ ایسے کہتا ...

    مزید پڑھیے

    اندھیروں سے تم کیوں ضیا مانگتے ہو

    اندھیروں سے تم کیوں ضیا مانگتے ہو حکومت سے عہد وفا مانگتے ہو دعاؤں کہ تم کو ضرورت ہے یارو دواؤں سے تم کیوں شفا مانگتے ہو جو مانگی دلیلیں تو عالم یہ بولے بڑے بے ادب ہو یہ کیا مانگتے ہو یہ دولت یہ شہرت یہ سب عارضی ہے مبارک ہو رب کی رضا مانگتے ہو بڑی دیر کر دی نصیحت کو تم نے نئی ...

    مزید پڑھیے

    سوئی حسرت جگا گیا کوئی

    سوئی حسرت جگا گیا کوئی خواب مجھ کو دکھا گیا کوئی چاند بھی اب نہیں رہا دل کش کس قدر دل لبھا گیا کوئی بعد مدت کے آنکھ یوں روئی مجھ کو دریا بنا گیا کوئی آج سیکھی ہے دوستی میں نے جان مجھ پر لٹا گیا کوئی وہ سمجھتے تھے مجھ کو لا ثانی آئنہ پھر دکھا گیا کوئی اس نے پوچھا تھا میری قیمت ...

    مزید پڑھیے

    رفیقوں کو مدد کرنے پکارا ہم نہیں کرتے

    رفیقوں کو مدد کرنے پکارا ہم نہیں کرتے خدا کافی ہے بندوں کا سہارا ہم نہیں کرتے زباں یہ حق کی عادی ہے کسی سے ڈر نہیں سکتی سبھی کچھ کھل کے کہتے ہیں اشارہ ہم نہیں کرتے سمندر میں اتر کے رخ ہوا کا موڑ دیتے ہیں کبھی ساحل سے طوفاں کا نظارہ ہم نہیں کرتے یہ خودداری ہماری ہم کو اپنی جاں سے ...

    مزید پڑھیے