کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں
کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں پتا آنکھیں کو ملتا ہے یہیں سب ...