Shamim Hanafi

شمیم حنفی

ممتاز ترین نقادوں میں سے ایک اور ہندوستانی تہذیب کے ماہر

One of the most prominent modern critics and scholar of Indian culture

شمیم حنفی کی غزل

    کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں

    کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں پتا آنکھیں کو ملتا ہے یہیں سب ...

    مزید پڑھیے

    پھر لوٹ کے اس بزم میں آنے کے نہیں ہیں

    پھر لوٹ کے اس بزم میں آنے کے نہیں ہیں ہم لوگ کسی اور زمانے کے نہیں ہیں اک دور کنارا ہے وہیں جا کے رکیں گے جتنے بھی یہاں گھر ہیں ٹھکانے کے نہیں ہیں یوں جاگتے رہنا ہے تو آنکھوں میں ہماری جو خواب چھپے ہیں نظر آنے کے نہیں ہیں دل ہے تو یہ دولت کبھی معدوم نہ ہوگی یہ درد کسی اور خزانے ...

    مزید پڑھیے

    روز و شب کی گتھیاں آنکھوں کو سلجھانے نہ دے

    روز و شب کی گتھیاں آنکھوں کو سلجھانے نہ دے اور جانے کے لیے اٹھوں تو وہ جانے نہ دے سرمئی گہرا خلا بے جان لمحوں کا غبار میں نہ کہتا تھا گل منظر کو مرجھانے نہ دے یا دل وحشی پہ یوں احساس کی یورش نہ ہو یا بھری آبادیوں کو ایسے ویرانے نہ دے آرزو کے قہر سے سانسوں کی کشتی کو بچا بادبانوں ...

    مزید پڑھیے

    شام آئی صحن جاں میں خوف کا بستر لگا

    شام آئی صحن جاں میں خوف کا بستر لگا مجھ کو اپنی روح کی ویرانیوں سے ڈر لگا ایک لمحے کی شرارت تھی کہ ہر لمحہ مجھے آپ اپنی سمت سے آتا ہوا پتھر لگا دھند سی پھیلی ہوئی تھی آسماں پر دور تک موجۂ ریگ رواں مجھ کو ترا پیکر لگا خانۂ دل کو سجانا بھی ہے اک شوق فضول کون جھانکے گا یہاں یہ آئینے ...

    مزید پڑھیے

    بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ

    بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ کیا پتہ زنجیر میں ڈھل جائے بستر کی شکن یہ سفر کا وقت ہے اب جانب بستر نہ دیکھ خاک و خوں میراث تیری خاک و خوں تیرا نصیب اس زیاں خانے میں اپنے پاؤں کا چکر نہ دیکھ تو نے جو پرچھائیاں چھوڑیں وہ صحرا بن ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک وہم ستاتا ہے بار بار مجھے

    بس ایک وہم ستاتا ہے بار بار مجھے دکھائی دیتا ہے پتھر کے آر پار مجھے مرا خدا ہے تو مجھ میں اتار دے مجھ کو کہ ایک عمر سے اپنا ہے انتظار مجھے میں لفظ لفظ بکھرتا رہا فضاؤں میں مری صدا سے وہ کرتا رہا شکار مجھے جو ڈھال دیتے ہیں پرچھائیوں کو پتھر میں اب ایسے سخت دلوں میں نہ کر شمار ...

    مزید پڑھیے

    لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے

    لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے ہمیں تو یہ تماشے سب کے سب اچھے نہیں لگتے اجالے میں ہمیں سورج بہت اچھا نہیں لگتا ستارے بھی سر دامان شب اچھے نہیں لگتے تو یہ ہوتا ہے ہم گھر سے نکلنا چھوڑ دیتے ہیں کبھی اپنی گلی کے لوگ جب اچھے نہیں لگتے یہ کہہ دینا کہ ان سے کچھ گلہ شکوہ نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3