Shamim Hanafi

شمیم حنفی

ممتاز ترین نقادوں میں سے ایک اور ہندوستانی تہذیب کے ماہر

One of the most prominent modern critics and scholar of Indian culture

شمیم حنفی کی غزل

    اس طرح عشق میں برباد نہیں رہ سکتے

    اس طرح عشق میں برباد نہیں رہ سکتے اتنے قصے تو ہمیں یاد نہیں رہ سکتے ہم محبت کے خرابوں کے مکیں ہیں پھر بھی عمر بھر مائل فریاد نہیں رہ سکتے آپ ہی آپ کھنچے جاتے ہیں اپنی جانب لوگ چاہیں بھی تو آزاد نہیں رہ سکتے ایک آواز سی آتی ہے عجب کانوں میں شہر اب دیر تک آباد نہیں رہ سکتے

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شور سا زنداں میں رات بھر کیا تھا

    وہ ایک شور سا زنداں میں رات بھر کیا تھا مجھے خود اپنے بدن میں کسی کا ڈر کیا تھا کوئی تمیز نہ کی خون کی شرارت نے اک ابر او باد کا طوفاں تھا دشت و در کیا تھا زمیں پہ کچھ تو ملا چند الجھنیں ہی سہی کوئی نہ جان سکا آسمان پر کیا تھا مرے زوال کا ہر رنگ تجھ میں شامل ہے تو آج تک مری حالت سے ...

    مزید پڑھیے

    کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے

    کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے کہ وہ بت بھی نہیں پھر کس طرح پتھر میں رہتا ہے وہاں صحرا بھی ہے جنگل بھی دریا بھی چٹانیں بھی عجب دنیا بسا رکھی ہے وہ جس گھر میں رہتا ہے کھلے گی دھوپ جب پرچھائیاں پیڑوں سے نکلیں گی یہ منظر بھی اسی سمٹے ہوئے منظر میں رہتا ہے بلند و پست کی ...

    مزید پڑھیے

    تیرگی چاند کو انعام وفا دیتی ہے

    تیرگی چاند کو انعام وفا دیتی ہے رات بھر ڈوبتے سورج کو صدا دیتی ہے میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے کوئی سایہ تو ملا دھوپ کے زندانی کو میری وحشت تری چاہت کو دعا دیتی ہے کتنی صدیوں کے دریچے میں ہے بس ایک وجود زندگی سانس کو تلوار بنا دیتی ...

    مزید پڑھیے

    پرچھائیوں کی بات نہ کر رنگ حال دیکھ

    پرچھائیوں کی بات نہ کر رنگ حال دیکھ آنکھوں سے اب ہوا‌ و ہوس کا مآل دیکھ دو شیر جس کے قہر کی جنگل میں دھوم تھی میری نشست گاہ میں اب اس کی کھال دیکھ خوشبو کی طرح گونج اٹھا حرف آگہی اے دل ذرا حصار نفس کا زوال دیکھ تجھ سے قریب آئے تو اپنی خبر نہ تھی دوری کا یہ عذاب برنگ وصال ...

    مزید پڑھیے

    ہر نقش نوا لوٹ کے جانے کے لیے تھا

    ہر نقش نوا لوٹ کے جانے کے لیے تھا جو بھول چکا ہوں وہ بھلانے کے لیے تھا کچھ بھید زمانے کے بھی مجھ پر نہ کھلے تھے کچھ میں بھی ریاکار زمانے کے لیے تھا کچھ میں نے بھی بے وجہ ہنسی اس کی اڑائی کچھ وہ بھی مری جان جلانے کے لیے تھا کچھ لوگ جزیروں پہ کھڑے تھے سو کھڑے ہیں سیلاب سفینوں کو ...

    مزید پڑھیے

    سورج دھیرے دھیرے پگھلا پھر تاروں میں ڈھلنے لگا

    سورج دھیرے دھیرے پگھلا پھر تاروں میں ڈھلنے لگا میرے اندر کا سناٹا جاگ کے آنکھیں ملنے لگا شام نے برف پہن رکھی تھی روشنیاں بھی ٹھنڈی تھیں میں اس ٹھنڈک سے گھبرا کر اپنی آگ میں جلنے لگا سارا موسم بدل چکا تھا پھول بھی تھے اور آگ بھی تھی رات نے جب یہ سوانگ رچایا چاند بھی روپ بدلنے ...

    مزید پڑھیے

    کتاب پڑھتے رہے اور اداس ہوتے رہے

    کتاب پڑھتے رہے اور اداس ہوتے رہے عجیب شخص تھا جس کے عذاب ڈھوتے رہے کوئی تو بات تھی ایسی کہ اس تماشے پر ہنسی بھی آئی مگر منہ چھپا کے روتے رہے ہمی کو شوق تھا دنیا کے دیکھنے کا بہت ہم اپنی آنکھوں میں خود سوئیاں چبھوتے رہے بس اپنے آپ کو پانے کی جستجو تھی کہ ہم خراب ہوتے رہے اور خود ...

    مزید پڑھیے

    یہ رشتۂ جاں میری تباہی کا سبب ہے

    یہ رشتۂ جاں میری تباہی کا سبب ہے اس قید سے چھٹنے کی تمنا بھی عجب ہے اس عرصۂ محشر میں خموشی بھی صدا ہے ٹوٹی ہوئی قبروں میں بڑا شور و شعب ہے سورج کو یہ ضد اس کی اک بوند نہ رہ جائے ہونٹوں کو فقط پیاس بجھانے کی طلب ہے چہرے پہ تھکن سانس کی زنجیر پریشاں آنکھوں میں مگر اب بھی وہی غیظ و ...

    مزید پڑھیے

    کیوں پریشان ہوا جاتا ہے دل کیا جانے

    کیوں پریشان ہوا جاتا ہے دل کیا جانے کیسا پاگل ہے کہ پانی کو بھی صحرا جانے میں وہ آوارہ کہ بادل بھی خفا ہیں مجھ سے تو زمانے کو بھی ٹھہرا ہوا لمحہ جانے دھوپ کی گرد فضاؤں میں دلوں میں تابوت ہر نفس خود کو بس اک آگ کا دریا جانے اوس کی بوند بھی اب سنگ صفت لگتی ہے پھول کے باغ کو دل آگ کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3