Shamim Hanafi

شمیم حنفی

ممتاز ترین نقادوں میں سے ایک اور ہندوستانی تہذیب کے ماہر

One of the most prominent modern critics and scholar of Indian culture

شمیم حنفی کی غزل

    زیر زمیں دبی ہوئی خاک کو آساں کہو

    زیر زمیں دبی ہوئی خاک کو آساں کہو حرف خراب و خستہ کو ضد ہے کہ داستاں کہو آب سیاہ پھیر دو باب وفا کے نقش پر شہر انا میں جب کبھی قصۂ دیگراں کہو کون شریک درد تھا آتش سرد کے سوا راکھ حقیر تھی مگر راکھ کو مہرباں کہو دور خلا کے دشت میں مثل شرار ثبت ہیں کس نے انہیں خفا کیا کیوں ہوئے بد ...

    مزید پڑھیے

    سفر نصیب اگر ہو تو یہ بدن کیوں ہے

    سفر نصیب اگر ہو تو یہ بدن کیوں ہے دیار غیر تمہارے لئے وطن کیوں ہے ہوائے شبنم و گل ہے تو بے خودی کیسی حصار ذات میں آشوب ما و من کیوں ہے بس ایک عکس نظارہ ہے انکشاف وجود کلاہ شیشہ گراں میں یہ بانکپن کیوں ہے نشاط بے طلبی جادۂ نجات ہوا خبر نہیں کہ اسی راہ میں چمن کیوں ہے لباس خاک شفق ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے

    ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے ایک سناٹا مگر چھایا ہوا احساس پر ہے اک سمندر بے حسی کا ایک کشتی آرزو کی ہائے کتنی مختصر لوگوں کی روداد سفر ہے میں ازل سے چل رہا ہوں تھک گیا ہوں سوچتا ہوں کیا تری دنیا میں ہر منزل نشان رہ گزر ہے اس فصیل غم کو سر کرنے پہ بھی کیا مل سکے گا ایک ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے چاک پر اے کوزہ گر لگتا ہے ڈر ہم کو

    تمہارے چاک پر اے کوزہ گر لگتا ہے ڈر ہم کو عجب پاگل سی اک پرچھائیں آتی ہے نظر ہم کو یہ کیسی بات ہے دن کی گھڑی ہے اور اندھیرا ہے چمکتی دھوپ میں سونا پڑا ہے رات بھر ہم کو ہمیں گھر سے نکالا تھا تو یہ بھی سوچ لینا تھا کہ صاحب پھر کبھی آنا نہیں ہے لوٹ کر ہم کو ابھی تھوڑا سا شاید اور کچھ ...

    مزید پڑھیے

    طلسم ہے کہ تماشا ہے کائنات اس کی

    طلسم ہے کہ تماشا ہے کائنات اس کی چراغ ہجر سے روشن رہے گی رات اس کی زمین ہو کہ زماں سب اسی کے مہرے ہیں بچھی ہوئی ہے بہت دور تک بساط اس کی ہمارے ساتھ بھی ہوتے ہیں تجربے اس کے ہمارے حال میں شامل ہے واردات اس کی شکست و فتح میں کیا فرق ہے نہیں معلوم یہ کیا کہ جیت ہماری ہے اور مات اس ...

    مزید پڑھیے

    شام کے ساحل پہ سورج کا سفینہ آ لگا

    شام کے ساحل پہ سورج کا سفینہ آ لگا ڈوبتی آنکھوں کو یہ منظر بہت اچھا لگا درد کے پتھر سبھی آب رواں میں گھل گئے شور تھا کتنا مگر آنکھوں کو سناٹا لگا چار سو پھیلی ہوئی موج نفس کی گونج تھی مجھ کو پیاسی ریت کا صحرا بھی اک دریا لگا ان گنت سائے تری تصویر میں ڈھلتے گئے چاندنی جاگی تو ہر ...

    مزید پڑھیے

    اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے

    اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے دل آٹھ پہر اپنی حدیں ڈھونڈ رہا ہے احساس کی وادی میں کوئی صوت نہ صورت یہ منزل عرفان تک آنے کا صلہ ہے زخموں کے بیاباں میں کوئی پھول نہ پتھر یادوں کے جزیرے میں نہ بت ہیں نہ خدا ہے اک خاک کے پیکر کا تماشہ ہے سڑک پر ہر شخص یہاں قہر کی تصویر بنا ہے مٹی ...

    مزید پڑھیے

    آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے

    آنا اسی کا بزم سے جانا اسی کا ہے کس کو پتہ نہیں کہ زمانا اسی کا ہے اے مطلع ملال ہمارے لیے بھی کچھ تاروں بھری یہ رات خزانا اسی کا ہے اس گھر میں کوئی چیز کسی اور کی نہیں یہ پھول یہ چراغ فسانا اسی کا ہے اک عہد کر لیا تھا کبھی بھول چوک میں سانسوں کا یہ وبال بہانا اسی کا ہے اب اس گلی ...

    مزید پڑھیے

    سمجھ سکے نہ جسے کوئی بھی سوال ایسا

    سمجھ سکے نہ جسے کوئی بھی سوال ایسا بنا ہے سانس کے دھاگوں نے ایک جال ایسا کبھی دماغ تھا مجھ کو بھی خود پرستی کا پلٹ کے ذہن میں آیا نہ پھر خیال ایسا میں آسماں تو نہ تھا جس میں چاند چھپ جاتے ہوا نہ ہوگا کسی کا کبھی زوال ایسا تمام عمر نئے لفظ کی تلاش رہی کتاب درد کا مضموں تھا پائمال ...

    مزید پڑھیے

    شعلہ شعلہ تھی ہوا شیشۂ شب سے پوچھو

    شعلہ شعلہ تھی ہوا شیشۂ شب سے پوچھو یا مرا حال مری تاب طلب سے پوچھو جانے کس موڑ پہ ان آنکھوں نے موتی کھوئے بستیاں دید کی ویران ہیں کب سے پوچھو راستے لوگوں کو کس سمت لیے جاتے ہیں کیا خبر کون بتا پائے گا سب سے پوچھو دن نکلتے ہی ستاروں کے سفینے ڈوبے دل کے بجھنے کا سبب موج طرب سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3