Shakeel Azmi

شکیل اعظمی

شاعر اور فلم نغمہ نگار

Poet and film lyricist.

شکیل اعظمی کی غزل

    کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا

    کہیں سے چاند کہیں سے قطب نما نکلا قدم جو گھر سے نکالا تو راستہ نکلا جلایا دھوپ میں خود کو تو ایک سایہ سا ہمارے جسم کی دیوار سے لگا نکلا تمام عمر بھٹکتا رہا میں تیرے لئے ترا وجود ہی ہستی کا مدعا نکلا تمہاری آنکھوں میں صدیوں کی پیاس ڈوب گئی ہماری روح سے احساس کربلا نکلا گریز ...

    مزید پڑھیے

    طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد

    طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد میں اور ہو گیا تنہا ترے خیال کے بعد تپش اک اور ہے دن کی حرارتوں کے سوا سفر اک اور ہے سورج ترے زوال کے بعد کسی سے رکھتے کہاں دشمنی کا رشتہ ہم لہو کو سرد بھی ہونا تھا اک ابال کے بعد جو توڑنا ہے تو دل اس ادا سے توڑ مرا کوئی ملال نہ ہو مجھ کو اس ملال کے ...

    مزید پڑھیے

    دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے

    دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے سبھی سے پیار کرو زندگی بہت کم ہے مقام جس کا فرشتوں سے بھی زیادہ تھا ہماری ذات میں وہ آدمی بہت کم ہے ہمارے گاؤں میں پتھر بھی رویا کرتے تھے یہاں تو پھول میں بھی تازگی بہت کم ہے جہاں ہے پیاس وہاں سب گلاس خالی ہیں جہاں ندی ہے وہاں تشنگی بہت کم ...

    مزید پڑھیے

    شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی

    شاعری روح میں تحلیل نہیں ہو پاتی ہم سے جذبات کی تشکیل نہیں ہو پاتی ہم ملازم ہیں مگر تھوڑی انا رکھتے ہیں ہم سے ہر حکم کی تعمیل نہیں ہو پاتی آسماں چھین لیا کرتا ہے سارا پانی آنکھ بھرتی ہے مگر جھیل نہیں ہو پاتی شام تک ٹوٹ کے ہر روز بکھر جاتا ہوں یاس امید میں تبدیل نہیں ہو ...

    مزید پڑھیے

    چاند میں ڈھلنے ستاروں میں نکلنے کے لیے

    چاند میں ڈھلنے ستاروں میں نکلنے کے لیے میں تو سورج ہوں بجھوں گا بھی تو جلنے کے لیے منزلو تم ہی کچھ آگے کی طرف بڑھ جاؤ راستہ کم ہے مرے پاؤں کو چلنے کے لیے زندگی اپنے سواروں کو گراتی جب ہے ایک موقع بھی نہیں دیتی سنبھلنے کے لیے میں وہ موسم جو ابھی ٹھیک سے چھایا بھی نہیں سازشیں ...

    مزید پڑھیے

    سنگ تھے پگھلے تو پانی ہو گئے

    سنگ تھے پگھلے تو پانی ہو گئے ہم وہ چہرے جو کہانی ہو گئے کھیل ہے اب ہر طرف تصویر کا لفظ سارے بے معانی ہو گئے بات کرنی تھی ہمیں جس سے بہت ہم اسی کی بے زبانی ہو گئے چند قطرے رہ گئے تھے آنکھ میں وہ بھی دریا کی روانی ہو گئے سبز موسم آ گیا تھا روم میں آئنے بھی دھانی دھانی ہو گئے آسماں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں

    اپنی ہستی کو مٹا دوں ترے جیسا ہو جاؤں اس طرح چاہوں تجھے میں ترا حصہ ہو جاؤں پائلیں باندھ کے بارش کی کروں رقص جنوں تو گھٹا بن کے برس اور میں صحرا ہو جاؤں دور تک ٹھہرا ہوا جھیل کا پانی ہوں میں تیری پرچھائیں جو پڑ جائے تو دریا ہو جاؤں شہر در شہر مرے عشق کی نوبت باجے میں جہاں جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا

    ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا محبتوں میں ضروری نہیں ہے مر جانا کبھی لحاظ نہ رکھنا کسی روایت کا جو جی میں آیا اسے ہم نے معتبر جانا وہ ریت ریت فضا میں تری صدا کا سراب وہ بے ارادہ مرا راہ میں ٹھہر جانا تمام رات بھٹکنا ترے تعاقب میں ترے خیال کی سب سیڑھیاں اتر جانا وہ من میں چور ...

    مزید پڑھیے

    پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

    پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے ملا ہے حسن تو اس حسن کی حفاظت کر سنبھل کے چل تجھے سارا جہان دیکھتا ہے کنیز ہو کوئی یا کوئی شاہزادی ہو جو عشق کرتا ہے کب خاندان دیکھتا ہے گھٹائیں اٹھتی ہیں برسات ہونے لگتی ہے جب آنکھ بھر کے فلک کو کسان دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہنا ہے تو سانسوں کا زیاں اور سہی

    زندہ رہنا ہے تو سانسوں کا زیاں اور سہی روشنی کے لیے تھوڑا سا دھواں اور سہی صبح کی شرط پہ منظور ہیں راتیں ہم کو پھول کھلتے ہوں تو کچھ روز خزاں اور سہی خواب تعبیر کا حصہ ہے تو سو کر دیکھیں سچ کے ادراک میں اک شہر گماں اور سہی وہ برش اور میں روتا ہوں قلم سے اپنے درد تو ایک ہیں دونوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3