Shakeel Azmi

شکیل اعظمی

شاعر اور فلم نغمہ نگار

Poet and film lyricist.

شکیل اعظمی کی غزل

    پھول کا شاخ پہ آنا بھی برا لگتا ہے

    پھول کا شاخ پہ آنا بھی برا لگتا ہے تو نہیں ہے تو زمانہ بھی برا لگتا ہے اوب جاتا ہوں خموشی سے بھی کچھ دیر کے بعد دیر تک شور مچانا بھی برا لگتا ہے اتنا کھویا ہوا رہتا ہوں خیالوں میں ترے پاس میرے ترا آنا بھی برا لگتا ہے ذائقہ جسم کا آنکھوں میں سمٹ آیا ہے اب تجھے ہاتھ لگانا بھی برا ...

    مزید پڑھیے

    بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے

    بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے رات بھر جاگتے رہنے کا عمل ٹھیک نہیں چاند کے عشق میں بینائی چلی جاتی ہے میں نے اس شہر کو دیکھا بھی نہیں جی بھر کے اور طبیعت ہے کہ گھبرائی چلی جاتی ہے کچھ دنوں کے لیے منظر سے اگر ہٹ جاؤ زندگی بھر کی شناسائی چلی جاتی ...

    مزید پڑھیے

    پھول کھلا دے شاخوں پر پیڑوں کو پھل دے مالک

    پھول کھلا دے شاخوں پر پیڑوں کو پھل دے مالک دھرتی جتنی پیاسی ہے اتنا تو جل دے مالک کہرا کہرا سردی ہے کانپ رہا ہے پورا گاؤں دن کو تپتا سورج دے رات کو کمبل دے مالک بیلوں کو اک گٹھری گھاس انسانوں کو دو روٹی کھیتوں کو بھر گیہوں سے کاندھوں کو ہل دے مالک وقت بڑا دکھ دائک ہے پاپی ہے ...

    مزید پڑھیے

    ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے

    ندی کا آب دیا ہے تو کچھ بہاؤ بھی دے مری غزل کو نیا پن بھی دے رچاؤ بھی دے چلا کے سرد ہوا مجھ کو منجمد بھی کر پگھل کے پھیلنا چاہوں تو اک الاؤ بھی دے کہ جس کے درد کا احساس تیرے جیسا ہو کبھی کبھی مری فطرت کو ایسا گھاؤ بھی دے عذاب سیل مسلسل جو دے رہا ہے مجھے تو سطح آب پہ چلنے کو ایک ناؤ ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے

    ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے میں نے دیکھا ہے جو مردوں کی طرح رہتے تھے مسخرے بن گئے دربار میں رہنے کے لیے ایسی مجبوری نہیں ہے کہ چلوں پیدل میں خود کو گرماتا ہوں رفتار میں رہنے کے لیے اب تو بدنامی سے شہرت کا وہ رشتہ ہے کہ لوگ ننگے ہو جاتے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

    کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہات رہ جائے اب اس کے بعد کا موسم ہے سردیوں والا ترے بدن کا کوئی لمس ساتھ رہ جائے میں سو رہا ہوں ترے خواب دیکھنے کے لیے یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے میں ڈوب جاؤں سمندر کی تیز لہروں میں کنارے رکھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    میں جانتا ہوں خوشامد پسند کتنا ہے

    میں جانتا ہوں خوشامد پسند کتنا ہے یہ آسمان زمیں سے بلند کتنا ہے تمام رسم اٹھا لی گئی محبت میں دلوں کے بیچ مگر قید و بند کتنا ہے جو دیکھتا ہے وہی بولتا ہے لوگوں سے یہ آئنہ بھی حقیقت پسند کتنا ہے تمام رات مرے ساتھ جاگتا ہے کوئی وہ اجنبی ہے مگر درد مند کتنا ہے میں اس کے بارے میں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب منظر ہے بارشوں کا مکان پانی میں بہہ رہا ہے

    عجیب منظر ہے بارشوں کا مکان پانی میں بہہ رہا ہے فلک زمیں کی حدود میں ہے نشان پانی میں بہہ رہا ہے تمام فصلیں اجڑ چکی ہیں نہ ہل بچا ہے نہ بیل باقی کسان گروی رکھا ہوا ہے لگان پانی میں بہہ رہا ہے عذاب اترا تو پاؤں سب کے زمیں کی سطحوں سے آ لگے ہیں ہوا کے گھر میں نہیں ہے کوئی مچان پانی ...

    مزید پڑھیے

    اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے

    اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے یہ ہم نے عشق کیا ہے یا کوئی بھول کی ہے خیال آیا ہے اب راستہ بدل لیں گے ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے کہ آرزو مرے آنگن کو ایک پھول کی ہے نہ جانے کون سا لمحہ مرے قرار کا ہے نہ جانے کون سی ساعت ترے حصول کی ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    راہ میں گھر کے اشارے بھی نہیں نکلیں گے

    راہ میں گھر کے اشارے بھی نہیں نکلیں گے چاند ڈوبا تو ستارے بھی نہیں نکلیں گے ڈوبنے کے لیے ساحل پہ کھڑا ہوں میں بھی بندشیں توڑ کے دھارے بھی نہیں نکلیں گے ٹھہر اے سیل رواں ورنہ یہ بستی ہی نہیں تیرے غرقاب کنارے بھی نہیں نکلیں گے میری بستی بڑی مفلس ہے مگر اے حاتم لوگ یوں ہاتھ پسارے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3