Shakeel Azmi

شکیل اعظمی

شاعر اور فلم نغمہ نگار

Poet and film lyricist.

شکیل اعظمی کی غزل

    دھوپ سے بر سر پیکار کیا ہے میں نے

    دھوپ سے بر سر پیکار کیا ہے میں نے اپنے ہی جسم کو دیوار کیا ہے میں نے جب بھی سیلاب مرے سر کی طرف آیا ہے اپنے ہاتھوں کو ہی پتوار کیا ہے میں نے جو پرندے مری آنکھوں سے نکل بھاگے تھے ان کو لفظوں میں گرفتار کیا ہے میں نے پہلے اک شہر تری یاد سے آباد کیا پھر اسی شہر کو مسمار کیا ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے

    ایک سوراخ سا کشتی میں ہوا چاہتا ہے سب اثاثہ مرا پانی میں بہا چاہتا ہے مجھ کو بکھرایا گیا اور سمیٹا بھی گیا جانے اب کیا مری مٹی سے خدا چاہتا ہے ٹہنیاں خشک ہوئیں جھڑ گئے پتے سارے پھر بھی سورج مرے پودے کا بھلا چاہتا ہے ٹوٹ جاتا ہوں میں ہر روز مرمت کر کے اور گھر ہے کہ مرے سر پہ گرا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو سوچوں تو ترے جسم کی خوشبو آئے

    تجھ کو سوچوں تو ترے جسم کی خوشبو آئے میری غزلوں میں علامت کی طرح تو آئے میں تجھے چھیڑ کے خاموش رہوں سب بولیں باتوں باتوں میں کوئی ایسا بھی پہلو آئے قرض ہے مجھ پہ بہت رات کی تنہائی کا میرے کمرے میں کوئی چاند نہ جگنو آئے لگ کے سوئی ہے کوئی رات مرے سینے سے صبح ہو جائے کہ جذبات پہ ...

    مزید پڑھیے

    ہوا نہ ختم عذابوں کا سلسلہ اب تک

    ہوا نہ ختم عذابوں کا سلسلہ اب تک خزاں کی زد میں بھی اک پھول ہے ہرا اب تک ملا تھا زہر جو ورثے میں پی رہے ہیں ہم نہ اس نے صلح کی سوچی نہ میں جھکا اب تک یہ سچ ہے وہم کے دلدل سے لوٹ آیا ہوں مگر یقین کا دھندلا ہے آئنہ اب تک انہی غموں کا وہ اک دن حساب مانگے گا فلک سے جو مرے کشکول میں پڑا ...

    مزید پڑھیے

    چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنے والا ہے

    چڑھا ہوا ہے جو دریا اترنے والا ہے اب اس کہانی کا کردار مرنے والا ہے یہ آگہی ہے کسی حادثے کے آمد کی بدن کا سارا اثاثہ بکھرنے والا ہے ذرا سی دیر میں زنجیر ٹوٹ جائے گی جنون اپنی حدوں سے گزرنے والا ہے سنا ہے شہر میں آیا ہے جادو گر کوئی تمام شہر کو تصویر کرنے والا ہے تمام شہر بنایا ...

    مزید پڑھیے

    درد میں شدت احساس نہیں تھی پہلے

    درد میں شدت احساس نہیں تھی پہلے زندگی رام کا بن باس نہیں تھی پہلے ہم بھی سو جاتے تھے معصوم فرشتوں کی طرح اور یہ رات بھی حساس نہیں تھی پہلے ہم نے اس بار تجھے جسم سے ہٹ کر سوچا شاعری روح کی عکاس نہیں تھی پہلے تیری فرقت ہی اداسی کا سبب ہے اب کے تیری قربت بھی ہمیں راس نہیں تھی ...

    مزید پڑھیے

    راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں

    راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں مجھ کو پہچان ترا دوسرا چہرہ میں ہوں دفن ہیں تیرے کئی راز مرے سینے میں جو ترے گھر سے گزرتا ہے وہ رستہ میں ہوں مدتوں بعد بھی جاری ہے عذابوں کا سفر قطرہ قطرہ تری آنکھوں سے ٹپکتا میں ہوں آ ذرا بیٹھ مرے پاس بھی کچھ پل کے لیے میرے ہمدم تری دیوار ...

    مزید پڑھیے

    مجھ پہ ہیں سیکڑوں الزام مرے ساتھ نہ چل

    مجھ پہ ہیں سیکڑوں الزام مرے ساتھ نہ چل تو بھی ہو جائے گا بدنام مرے ساتھ نہ چل تو نئی صبح کے سورج کی ہے اجلی سی کرن میں ہوں اک دھول بھری شام مرے ساتھ نہ چل اپنی خوشیاں مرے آلام سے منسوب نہ کر مجھ سے مت مانگ مرا نام مرے ساتھ نہ چل تو بھی کھو جائے گی ٹپکے ہوئے آنسو کی طرح دیکھ اے ...

    مزید پڑھیے

    قدم اٹھے ہیں تو دھول آسمان تک جائے

    قدم اٹھے ہیں تو دھول آسمان تک جائے چلے چلو کہ جہاں تک بھی یہ سڑک جائے نظر اٹھاؤ کہ اب تیرگی کے چہرے پر عجب نہیں کہ کوئی روشنی لپک جائے گداز جسم سے پھولوں پہ انگلیاں رکھ دوں یہ شاخ اور ذرا سا اگر لچک جائے کبھی کبھار ترے جسم کا اکیلا پن مرے خیال کی عریانیت کو ڈھک جائے ترے خیال کی ...

    مزید پڑھیے

    اب اس سے ملنے کی امید کیا گماں بھی نہیں

    اب اس سے ملنے کی امید کیا گماں بھی نہیں زمیں گئی تو گئی سر پہ آسماں بھی نہیں بجھا بجھا سا ہے دل کا الاؤ برسوں سے کسی کی یاد کا آنکھوں میں اب دھواں بھی نہیں نئی صدی کے سفر میں بھی ہم اکیلے ہیں ہوا کے دوش پہ خوشبو کا کارواں بھی نہیں تمہیں بتاؤ یہاں کس طرح جئیں ہم لوگ تمہارے شہر میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3