مضموں میرے دل میں بے طلب آتے ہیں
مضموں میرے دل میں بے طلب آتے ہیں قدسی طبق نور میں دبے جاتے ہیں کچھ اور نہیں علم مجھے اس کے سوا کہتا ہوں وہی جو مجھ سے کہلواتے ہیں
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں
One of the most prominent pre-modern poets.
مضموں میرے دل میں بے طلب آتے ہیں قدسی طبق نور میں دبے جاتے ہیں کچھ اور نہیں علم مجھے اس کے سوا کہتا ہوں وہی جو مجھ سے کہلواتے ہیں
کیوں بات چھپاؤں رند مے نوش ہوں میں دنیا کہتی کہ دین فراموش ہوں میں حسرت سے گروں تو پائے ساقی پہ گروں جب خوب شراب پی کے مدہوش ہوں میں
بدلے نہ صداقت کا نشاں ایک رہے ہر حال میں پنہاں و نہاں ایک رہے انساں ہے وہی جو اس دور دو رنگی سے بچے لازم ہے کہ دل اور زباں ایک رہے
ہر حال میں آبروئے فن لازم ہے تقلید فصیحان وطن لازم ہے دریوزہ گری ہے عیب سن لیں احباب آپ اپنی زبان میں سخن لازم ہے
بعض اہل وطن سے اب بھی دکھ پاتا ہوں تحصیل کمال کر کے پچھتاتا ہوں ایسوں کی صداؤں کا کچھ اتنا نہیں وزن کیا عرض کروں اس پہ دبا جاتا ہوں
ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا دم بھرتے ہیں ارباب بلاغت میرا میں شہر میں رہتا ہوں سند ہیں میرے شعر منہ چومتی ہے آب فصاحت میرا
کیوں کر نہ رہے غم نہانی تیرا دنیا میں بتا کون ہے ثانی تیرا ہم لے کے عصا دور تلک ڈھونڈ آئے کوسوں نہیں نام اے جوانی تیرا
جس وقت کا ڈر تھا وہ شباب آ پہنچا ہنگام رحیل و پا تراب آ پہنچا جاگو جاگو حشر تک سونا ہے چونکو چونکو کہ وقت خواب آ پہنچا
اس سلسلۂ شہود کو توڑ دیا گھبرا کے عدم کی سمت منہ موڑ دیا کب تک ان سختیوں کو جھیلا کرتی اکتا کے مری روح نے جی چھوڑ دیا
جو چاہئے دیکھنا نہ دیکھا میں نے ہر شے پہ کیا ہے غور کیا کیا میں نے اوروں کا سمجھنا تو بہت مشکل ہے خود کیا ہوں اسی کو نہیں سمجھا میں نے