نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا
نالوں کی کشاکش سہہ نہ سکا خود تار نفس بھی ٹوٹ گیا اک عمر سے تھی تکلیف جسے کل شب کو وہ قیدی چھوٹ گیا تھی تیری تمنا کاہش جاں اس درد سے میں دیوانہ تھا چھالا تھا دل اپنے سینے میں اے وا اسفا وہ پھوٹ گیا سب اپنی ہی اپنی دھن میں پھنسے تیرا تو نہ نکلا کام کوئی جو آیا ترے دروازے پر وہ اپنا ...