تم یہ کہتے ہو اک سوال ہو تم
تم یہ کہتے ہو اک سوال ہو تم تم کو چھو کر جواب کر دوں گی تم کو غم ہے کہ ایک آتش ہو پاس آؤ تو آب کر دوں گی
تم یہ کہتے ہو اک سوال ہو تم تم کو چھو کر جواب کر دوں گی تم کو غم ہے کہ ایک آتش ہو پاس آؤ تو آب کر دوں گی
دل سے ہو کر دل تلک جایا کرو بیچ کے رستے نہ اپنایا کرو مجھ کو باتیں کم سمجھ آتی ہیں تم کچھ عمل کر کے ہی بتلایا کرو
اس دھرتی سے اس عنبر کو لوٹ گیا پھر سے خدا کے اعلیٰ در کو لوٹ گیا آدم زادوں کی دنیا سے تنگ آ کر ایک فرشتہ اپنے گھر کو لوٹ گیا
سہیلی کی سہیلی عرشیہ حقؔ بہت مشکل پہیلی عرشیہ حقؔ خوشی کیا شے نہیں معلوم اس کو غموں کے سنگ کھیلی عرشیہ حقؔ
مسجد کو مت جایا کر مجھ کو پاس بٹھایا کر مجھ سے پیار کی بولی بول میرے لب سے روزہ کھول