ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا
ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا جتنا ہے ادھر ادھر بھی ہوگا مانا یہ کہ دل ہے اس کا پتھر پتھر میں نہاں شرر بھی ہوگا ہنسنے دے اسے لحد پہ میری اک دن وہی نوحہ گر بھی ہوگا نالہ مرا گر کوئی شجر ہے اک روز یہ بارور بھی ہوگا ناداں نہ سمجھ جہان کو گھر اس گھر سے کبھی سفر بھی ہوگا مٹی کا ہی گھر ...