Sauda Mohammad Rafi

محمد رفیع سودا

اٹھارہویں صدی کے عظیم شاعروں میں شامل، میر تقی میر کے ہم عصر

One of the greatest 18th century poets, contemporary of Mir Taqi Mir.

محمد رفیع سودا کی غزل

    بارہا دل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ

    بارہا دل کو میں سمجھا کے کہا کیا کیا کچھ نہ سنا اور کھویا مجھ سے مرا کیا کیا کچھ عزت و آبرو و حرمت و دین و ایماں روؤں کس کس کو میں یارو کہ گیا کیا کیا کچھ صبر و آرام کہوں یا کہ میں اب ہوش و حواس ہو گیا اس کی جدائی میں جدا کیا کیا کچھ عشق کس ذات کا عقرب ہے کہ لگتے ہی نیش دل کے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت

    ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت کافی ہے مرے نالے کو بلبل کی اشارت فتویٰ طلب اے یار نہ قاضی سے کروں میں توبہ شکنی کو ہے مری مل کی اشارت مل بیٹھ میری آنکھوں میں ہے ساعت نیک آج یہ چشم ترازو ہیں ترے تل کی اشارت ہے باعث جمعیت دل ایک جہاں کی اے شوخ پریشانیٔ کاکل کی اشارت تقویٰ کے ...

    مزید پڑھیے

    بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو

    بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو ہوا ہو ابر ہو ساقی ہو اور دریا ہو روا ہے کہہ تو بھلا اے سپہر نا انصاف ریائے زہد چھپے راز عشق رسوا ہو بھرا ہے اس قدر اے ابر دل ہمارا بھی کہ ایک لہر میں روئے زمین دریا ہو جو مہرباں ہیں وہ سوداؔ کو مغتنم جانیں سپاہی زادوں سے ملتا ہے دیکھیے کیا ہو

    مزید پڑھیے

    دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا

    دامن صبا نہ چھو سکے جس شہ سوار کا پہنچے کب اس کو ہاتھ ہمارے غبار کا موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا خون جگر شراب و ترشح ہے چشم تر ساغر مرا گرو نہیں ابر بہار کا چشم کرم سے عاشق وحشی اسیر ہو الفت ہے دام آہوئے دل کے شکار کا سونپا تھا کیا جنوں نے گریبان کو ...

    مزید پڑھیے

    تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح

    تجھ بن بہت ہی کٹتی ہے اوقات بے طرح جوں توں کے دن تو گزرے ہے پر رات بے طرح ہوتی ہے ایک طرح سے ہر کام کی جزا اعمال عشق کی ہے مکافات بے طرح بلبل کر اس چمن میں سمجھ کر ٹک آشیاں صیاد لگ رہا ہے تری گھات بے طرح پوچھا پیام بر سے جو میں یار کا جواب کہنے لگا خموش کہ ہے بات بے طرح ملنے نہ دے ...

    مزید پڑھیے

    برہمن بت کدے کے شیخ بیت اللہ کے صدقے

    برہمن بت کدے کے شیخ بیت اللہ کے صدقے کہیں ہیں جس کو سوداؔ وہ دل آگاہ کے صدقے جتا دیں جس جگہ ہم قدر اپنی ناتوانی کی اگر کہسار واں ہووے تو جاوے کاہ کے صدقے نہ دے تکلیف جلنے کی کسو کے دل کو میرے پر اثر سے دور رہتی ہیں میں اپنی آہ کے صدقے عجائب شغل میں تھے رات تم اے شیخ رحمت ہے میں اس ...

    مزید پڑھیے

    دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف

    دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف جوں صید وقت ذبح کے صیاد کی طرف نے دانہ ہم قیاس کیا نے لحاظ دام دھنس گئے قفس میں دیکھ کے صیاد کی طرف ثابت نہ ہووے خون مرا روز باز پرس بولیں گے اہل حشر سو جلاد کی طرف پتھر کی لیکھ تھا سخن اس کا ہزار حیف بولی زبان تیشہ نہ فرہاد کی طرف طرہ کے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے

    تجھ عشق کے مریض کی تدبیر شرط ہے لیکن شفا کو گردش تقدیر شرط ہے سودائی دل کو زلف گرہ گیر شرط ہے دیوانے کے علاج میں زنجیر شرط ہے نالے تو میں بہت کئے اس بت کے سامنے پتھر کے نرم کرنے کو تاثیر شرط ہے ہو خاک راہ عشق میں تا قدر ہو تری مس کے طلا بنانے کو اکسیر شرط ہے کافی ہے اک اشارۂ ابرو ...

    مزید پڑھیے

    بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی

    بے چین جو رکھتی ہے تمہیں چاہ کسو کی شاید کہ ہوئی کارگر اب آہ کسو کی اس چشم کا غمزہ جو کرے قتل دو عالم گوشے کو نگہ کے نہیں پرواہ کسو کی زلفوں کی سیاہی میں کچھ اک دام تھے اپنے قسمت کہ ہوئی رات وہ تنخواہ کسو کی کیا مصرف بے جا سے فلک کو ہے سروکار وہ شے کسو کو دے جو ہو دل خواہ کسو ...

    مزید پڑھیے

    غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے

    غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے نرگس کو آنکھ مار کے بیمار کر چلے پھرتے ہو باغ سے تو پکارے ہے عندلیب صبح بہار گل پہ شب تار کر چلے اٹھتے ہوئے جو دیر سے لی مدرسے کی راہ تسبیح شیخ شہر کی زنار کر چلے آئے جو بزم میں تو اٹھا چہرے سے نقاب پروانے ہی کو شمع سے بیزار کر چلے آزاد کرتے تم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4