میں اس کی پجارن وہ پجاری میرا
میں اس کی پجارن وہ پجاری میرا میں اس کی بھکارن وہ بھکاری میرا اک پاؤں پہ کہہ دوں تو کھڑا ہو جائے مرلی کی طرح کرشن مراری میرا
میں اس کی پجارن وہ پجاری میرا میں اس کی بھکارن وہ بھکاری میرا اک پاؤں پہ کہہ دوں تو کھڑا ہو جائے مرلی کی طرح کرشن مراری میرا
ہر شام ہوئی سنگار کرنا بھی ہے پھر رات کا انتظار کرنا بھی ہے تن کی مرے چاندی ہو کہ من کا سونا ساجن پر سب نثار کرنا بھی ہے
پوچھوں گی کوئی بات نہ منہ کھولوں گی ساجن ہیں بھروسے کے تو کیا بولوں گی لنکا کا محل ہو کہ خواب گاہ فرعون جس اور چلیں گے میں ادھر ہو لوں گی
دو دو مرے مہمان چلے آتے ہیں دونوں ہی دل و جان چلے آتے ہیں ساجن مرے آئے مرا دل لینے کو جاں لینے کو بھگوان چلے آتے ہیں
بابل کے گھر سے جب آئی اٹھ کر ڈولی جاگی میں پیا کے سنگ اکٹھے سو لی دیکھو کایا بن گئی مری ان کی چھایا وہ اٹھ کر چلے تو میں ان کے پیچھے ہو لی
جب شام ڈھلی سنگار کر کے روئی ساجن کا انتظار کر کے روئی جب ڈوب چلے گگن میں تارے دم صبح اک اک گہنہ اتار کر کے روئی
آنکھوں میں حیا اس کے جب آئی شب وصل پلکوں پہ پلک اس نے گرائی شب وصل عالم یہ سپردگی کا اس نے دیکھا ہر عضو میں آنکھ مسکرائی شب وصل
آتا ہے جو منہ میں مجھے کہہ دیتی ہو کیا تم سے کہوں سوائے اس کے سکھیو مجھ کو جو دکھایا خدا تم کو بھی دکھائے تم نے نہیں دیکھا ہے مرے یوسف کو