خود کو بے کل کیا اوروں کو ستائے رکھا
خود کو بے کل کیا اوروں کو ستائے رکھا عرصۂ عمر میں اک حشر اٹھائے رکھا جانے کس طور سے تنہائی نے چپکے چپکے شہر کا شہر مرے دل میں بسائے رکھا
خود کو بے کل کیا اوروں کو ستائے رکھا عرصۂ عمر میں اک حشر اٹھائے رکھا جانے کس طور سے تنہائی نے چپکے چپکے شہر کا شہر مرے دل میں بسائے رکھا
اس کے آنے کی دعا ہوتی ہے دن بھر لیکن در پہ دستک مرے دیتا ہے اثر شام کے بعد سارا دن گھر مرے رہتی ہیں کڑی دوپہریں ہاں مری شام بھی آتی ہے مگر شام کے بعد
ایک تعلق جان کے ملتے ہیں ورنہ اپنی خاطر جینا سہل تو ہوتا ہے رفتہ رفتہ ہو جائے گی آسانی ہر میدان میں پہلا پہل تو ہوتا ہے
بدن اور ذہن مل بیٹھے ہیں پھر سے یہ دل پھر سے اکیلا ہو رہا ہے شناسائی زیادہ ہو رہی ہے اور اندر کوئی تنہا ہو رہا ہے