صائمہ اسما کی نظم

    دل کی آخری تہہ میں

    بے کلی نہ بے زاری نے کوئی اداسی ہے دیکھنے کو لہجے میں خفگیاں نہیں ملتیں ایک چپ سی ہے لیکن گفتگو کے زمزم کو روک روک دیتی ہے ہر ادائے بے پروا تھام تھام لیتی ہے بولنے سے پہلے جو سوچنے کو کہتی ہے ہر سخن مکمل ہے پھر بھی حرف کہتے ہیں بات نا مکمل ہے قربتوں کی بارش میں اک گریز کا لمحہ اب ...

    مزید پڑھیے

    ویڈیو گیم

    بٹن آغاز کا دبتے ہی میں نے راستوں میں جا بہ جا بکھری ہوئی قوت ہر اک انداز سے خود میں انڈیلی تھی کتابیں اور سکھیاں خواب اور منظر صحیفوں کے سنہرے حرف سب جھولی میں ڈالے تھے خبر تھی جس مہم جوئی پہ نکلی ہوں یہاں چلنا مسلسل راہ دلدل اور توانائی مرا واحد حوالہ ہے بڑی مدت ہوئی چلتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    اپنا گھر

    گھر کی ساری چیزوں کو بے رخی سے یوں دیکھا جیسے اک تعلق ہو پھر نہ جانے کیا سوچا احتیاط سے ٹانگے پائنچے ارادوں کے اشتیاق سے الٹی آستین ہمت کی ایک ایک گوشے سے اوڑھنی کے پلو نے گرد غیریت جھاڑی تھام کر ہر اک شے کو اپنی آنکھ سے دیکھا اپنی سوچ سے چھو کر اپنے ہاتھ سے رکھا سارا گھر چمک ...

    مزید پڑھیے

    پنکچویشن

    تمہیں بھیجوں کتاب زندگی اپنی ذرا ترتیب دے دینا جہاں پر بات مبہم ہے جسے تفصیل لازم ہے وہاں پر حاشیہ دینا کہیں گر دو مکمل لفظ اکٹھے ہو گئے ہوں تو یہ قربت غیر فطری ہے ضروری ہے مناسب فاصلہ دینا جہاں پر ختم ہوتا ہو کوئی درد آشنا جملہ فراموشی کا نقطہ ثبت کر دینا وہیں پر ختم کر دینا نئے ...

    مزید پڑھیے

    مبارک باد

    زمانے! تہنیت تجھ کو کہ پھر میدان مارا ہے مگر اب کے جو ہارا ہے بڑا ہی سخت جاں نکلا مقابل تیرے آنے کو بہت تیار پھرتا تھا لیے ہتھیار پھرتا تھا وفا کے، ظرف کے آنکھوں میں روشن خوش گمانی کے لبوں پر کھیلتی خواہش، سخن میں ناچتی اک حوصلہ مندی رگوں میں دوڑتا سیال ارادہ تھا بدن پر خواب کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2