صائمہ اسما کی نظم

    مجھے بتا تو سہی

    مجھے بتا تو سہی اے حبیب کم عمری وہی ہیں لب وہی گفتار اور وہی انداز پس وجود وہ کیا تھا جو اب نہیں ہوتا مری نظر میں کوئی ایسی روشنی تھی بھلا جو بجلیوں سی اتر کر ترے سراپے میں تجھے ہجوم دلآرام سے سوا کرتی وہی ادا وہی انداز خد و خال مگر لگاؤ دل کا یوں ہی بے سبب نہیں ہوتا اب اس مقام پہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    مشکل

    مجھے کچھ دیر سونا ہے زمانے چیختے ہیں میرے کانوں میں خموشی کس طرح ہوگی مری آنکھوں میں سورج آ بسے ہیں رات کیسے ہو

    مزید پڑھیے

    پہیلی

    ایک سمندر اس میں رکھے چند جزیرے بیچ میں جن کے دوری کی نیلاہٹ رقصاں ربط باہم بس پانی کی اندھی لہریں یا طوفانی ہوا کے جھکڑ سنا ہے ایک جزیرے پر کوہ جودی ہے ہم اولاد نوح تو ہیں پر ناؤ بنانے کا سارا فن بھول چکے ہیں

    مزید پڑھیے

    ری سائیکلبن

    لفظ واپس نہیں ہوا کرتے تلخیوں میں گھلے ہوئے لہجے ظرف کے ہاتھ کیا ہی ماہر ہوں پھول بن کر نہیں کھلا کرتے حذف کرنے کا آسرا لے کر کوئی تحریر لکھ نہیں دینا بھول جانے کی التجا لے کر مت کہو کوئی حرف نا بینا کل جو خالی گیا تھا وار کوئی کارگر آج ہو بھی سکتا ہے بھولی بسری گواہیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    کہنا یہ تھا

    جانے کہاں ہو دفتر کے مردہ ماحول میں دوغلے لوگوں کے جھرمٹ میں شہر کی باہوں کے ظالم حلقے سے باہر چوڑی شہ راہوں کے تپتے سینے پر چپ چاپ رواں ہو یا کسی تہہ خانے کی ٹھنڈک کے مہماں ہو موبائل کا صاف جواب ہے آپ کے مطلوبہ نمبر سے کوئی جواب نہیں ملتا ہے کہنا یہ تھا یہ کمپیوٹر آج مری خواری پر ...

    مزید پڑھیے

    سانس خوشبو سے لدی جاتی ہے

    جب اداسی در و دیوار پہ چھا جاتی ہے دل کے تاروں میں کہیں سات سروں کی مالا ایک خاموش چھناکے سے بکھر جاتی ہے جب میں حالات کے بخشے ہوئے مایوس اندھیروں میں کہیں دور بھٹک جاتی ہوں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دینے لگتا دل کسی زرد ستارے کا سوالی بن کر گھپ اندھیرے میں کسی راہ کی ناکام طلب ...

    مزید پڑھیے

    بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے

    ہنگامۂ روز و شب سے ہٹ کر کچھ دیر کو ذات سے نکل کر احساس ملے جو ماورائی بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے وہ ہاتھ جو لکھ رہا ہے سب کچھ تقدیر کا کھول کر نوشتہ جب اپنے ہی دھیان میں مگن ہو چپکے سے اٹھا کے ایڑیوں کو ہولے سے ورق الٹ کے دیکھوں اس وقت میں جو ہے آنے والا جاں لیوا مسافتوں کے رستوں پر ...

    مزید پڑھیے

    کلیہ

    ایک انداز سے دیکھوں تو ہمایوں تم ہو اور اک طرز کی بابر میں ہوں روز و شب درد کے پھیروں میں رہیں بار غم خود پہ اٹھانے کی دعاؤں کے سوا مستجابی کا کوئی ڈھنگ نہ ہو تندرستی بھی کوئی طاق عدد ہو جیسے دو پہ تقسیم نہیں ہو سکتی میرے آزار میں جتنا بھی اضافہ ہوگا اس قدر تم کو شفا پہنچے گی

    مزید پڑھیے

    تو نے پوچھا ہے مرے دوست!

    تو نے پوچھا ہے مرے دوست تو میں سوچتی ہوں وہ جو اک چیز ہے دنیا جسے غم کہتی ہے مجھے تسلیم، مرا اس سے علاقہ نہ رہا زندگی گویا کوئی سیج رہی پھولوں کی پھر وہ کیا ہے کہ جو کانٹوں سی چبھا کرتی ہے میں نے دیکھی ہیں وہ بے مہر نگاہیں اے دوست جن کی بے گانگی دل چیر دیا کرتی ہے میں نے گھومے ہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    رہنے دو

    جو لمحے بیت گئے جاناں کیوں کر وہ لوٹ کے آئیں گے وہ دل جو ٹوٹ گئے ہمدم آخر کیسے جڑ پائیں گے اب ساری کوشش رہنے دو اور مختاری کے صحرا میں اک ہجر کی بندش رہنے دو جو نقش ہوا کے ہاتھ لگے ڈھونڈو تو کہاں تک جاؤ گے جاؤ بھی اگر کیا پاؤ گے بس ایک تمہی تھک جاؤ گے ہاتھوں کی لکیروں کی میرے خوابوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2