صائمہ اسما کی غزل

    ہم پس پردہ رہیں یا پیش منظر میں رہیں

    ہم پس پردہ رہیں یا پیش منظر میں رہیں ہاں ہمارے حرف روشن دیدۂ تر میں رہیں ایک صف میں ہم قدم رہنا اگر مشکل ہوا یہ تو ممکن ہے کہ ہم تم ایک لشکر میں رہیں تھک گئی ہوں سوچتی ہوں خود کو سمجھایا کروں یہ کہ آخر کتنے سودے ایک ہی سر میں رہیں ڈایری میں آج کی تاریخ پر لکھا ملا میزبانی کے لئے ...

    مزید پڑھیے

    سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے

    سنتے رہتے ہیں فقط کچھ وہ نہیں کہہ سکتے آئنوں سے جو کہیں ان کو نہیں کہہ سکتے ان کے لہجے میں کوئی اور ہی بولا ہوگا مجھے لگتا ہے کہ ایسا وہ نہیں کہہ سکتے شہر میں ایک دوانے سے کہلواتے ہیں اہل پندار مرے خود جو نہیں کہہ سکتے یوں تو مل جانے کو دم ساز کئی مل جائیں دل کی باتیں ہیں ہر اک ...

    مزید پڑھیے

    میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی

    میسر خود نگہ داری کی آسائش نہیں رہتی محبت میں تو پیش و پس کی گنجائش نہیں رہتی اندھیرے اور بھی کچھ تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں دیا کوئی جلانے کی جہاں کوشش نہیں رہتی یہ دل تو کس طرف جانے بہا کر لے گیا ہوتا نگاہوں میں اگر وہ ساعت پرسش نہیں رہتی مہ و انجم سے لوٹ آئیں اجارہ دار دنیا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں

    کچھ بے نام تعلق جن کو نام اچھا سا دینے میں میں تو ساری بکھر گئی ہوں گھر کو اکٹھا رکھنے میں دائرہ منفی مثبت کا تو اپنی جگہ مکمل ہے کوئی برقی رو دوڑا دے اس بے جان سے ناطے میں کون احساس کی لو بخشے گا روکھے پھیکے منظر کو کون پروئے گا جذبوں کے موتی حرف کے دھاگے میں ایسا کیا اندھیر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے

    کبھی برسوں کا سمٹاؤ بہت اچھا لگا ہے کبھی لمحے کا پھیلاؤ بہت اچھا لگا ہے ستایا ایک عرصہ طبع کی جولانیوں نے تو اب جذبوں کا ٹھہراؤ بہت اچھا لگا ہے لگایا ہے فراموشی کا مرہم سب پہ لیکن گئے وقتوں کا اک گھاؤ بہت اچھا لگا ہے سکوں پرور جزیروں تک مجھے پہنچانے والا تلاطم سا پس ناؤ بہت ...

    مزید پڑھیے

    سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں

    سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں اچانک ایک عجب بات یہ سنی کہ میں ہوں تلاش کر کے مجھے لوٹنے کو تھا کوئی مرے وجود کی خوشبو پکار اٹھی کہ میں ہوں کہ تیرگی میں پلی آنکھ کو یقیں آ جائے ذرا بلند ہو آہنگ روشنی کہ میں ہوں وہ خالی جان کے گھر لوٹنے کو آیا تھا مرے عدو کو خبر آج ہو گئی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا

    کوئی امکاں تو نہ تھا اس کا مگر چاہتا تھا کب سے کوئی کسی دیوار میں در چاہتا تھا ضبط کے پیڑ نے گل اور کھلائے اب کے اور ہی طرز کا یہ دل تو ثمر چاہتا تھا آخری منزل تسکین دل و جان تلک منزلیں راہ نہ کاٹیں یہ سفر چاہتا تھا چند لمحوں کے لئے جڑ کو وہ سیراب کرے اور شتابی سے نکل آئے ثمر ...

    مزید پڑھیے

    اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے

    اس رستے پر جاتے دیکھا کوئی نہیں ہے گھر ہے اک اور اس میں رہتا کوئی نہیں ہے کبھی کبھی تو اچھا خاصا چلتے چلتے یوں لگتا ہے آگے رستہ کوئی نہیں ہے ایک سہیلی باغ میں بیٹھی روتی جائے کہتی جائے ساتھی میرا کوئی نہیں ہے مہر و وفا قربانی قصوں کی ہیں باتیں سچی بات تو یہ ہے ایسا کوئی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا

    نقش جب زخم بنا زخم بھی ناسور ہوا جا کے تب کوئی مسیحائی پہ مجبور ہوا پر پرواز بھی تب تک نہ کھلے تھے جب تک بیٹھ جانے کی تھکن سے نہ بدن چور ہوا دن کی چھلنی میں ترا لمحۂ فرصت چھانے دل تو لگتا ہے اسی کام پہ مامور ہوا دامن دوست ہے اک ذہن کے پردوں میں کہیں جس قدر ہاتھ بڑھایا ہے سو وہ دور ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے

    ہنسی کی آنکھ میں پھیلا نمی کا رنگ دیکھا ہے اندھیروں میں لپٹتا روشنی کا رنگ دیکھا ہے سدا پہلو میں بھی مد مقابل کی طرح رہنا کسی کی دوستی میں دشمنی کا رنگ دیکھا ہے بڑی گہری محبت کی دھنک ہے جن نگاہوں میں انہی میں گاہے گاہے دل لگی کا رنگ دیکھا ہے کتابوں سے نکلتا ہے تو پہچانا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2