تیری آواز
رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے دل کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلی دینے میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آ جائے دیر تک آنکھوں میں چبھتی رہی تاروں کی چمک دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کے لیے تو نہ آئی مگر اس رات ...