Sahir Ludhianvi

ساحر لدھیانوی

اہم ترین ترقی پسند شاعروں میں شامل ، ممتاز فلم نغمہ نگار

One of the leading Progressive poets and film lyricist.

ساحر لدھیانوی کی غزل

    یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

    یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے الزام کسی اور کے سر جائے تو ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے

    صدیوں سے انسان یہ سنتا آیا ہے دکھ کی دھوپ کے آگے سکھ کا سایا ہے ہم کو ان سستی خوشیوں کا لوبھ نہ دو ہم نے سوچ سمجھ کر غم اپنایا ہے جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا رونا سچ نے بھی انساں کا خوں بہایا ہے پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے اول اول جس دل نے ...

    مزید پڑھیے

    میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

    میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

    مزید پڑھیے

    بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے

    بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے دنیا کا اشارہ تھا لیکن ...

    مزید پڑھیے

    دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

    دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے کہنے کو دل کی بات جنہیں ڈھونڈتے تھے ہم محفل میں آ گئے ہیں وہ اپنے نصیب سے نیلام ہو رہا تھا کسی نازنیں کا پیار قیمت نہیں چکائی گئی اک غریب سے تیری وفا کی لاش پہ لا میں ہی ڈال دوں ریشم کا یہ کفن جو ملا ہے رقیب سے

    مزید پڑھیے

    پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے

    پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں روشنی کا جھرمٹ ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے

    ہر قدم مرحلۂ دار و صلیب آج بھی ہے جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن راستہ منزل ہستی کا مہیب آج بھی ہے سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے اہل دانش نے جسے امر مسلم مانا اہل دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ...

    مزید پڑھیے

    سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے

    سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے اس راہ میں اے راہی ہر ...

    مزید پڑھیے

    سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں

    سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بات کریں انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں اس احتیاط سے کیا مدعا کی بات کریں ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات ...

    مزید پڑھیے

    اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے

    اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے گیسوؤں کی چھاؤں میں دل نواز چہرے ہیں یا حسیں دھندلکوں میں پھول ہیں بہاروں کے پہلے ہنس کے ملتے ہیں پھر نظر چراتے ہیں آشنا صفت ہیں لوگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5