لازم ملزوم ہو گئے ذات و صفات
لازم ملزوم ہو گئے ذات و صفات ہیں شخص و وجود عکس و سایہ کا ثبات توحید کا جلوہ ہیں حدوث اور قدم معدوم صفت ہے ذات قائم ہے بذات
لازم ملزوم ہو گئے ذات و صفات ہیں شخص و وجود عکس و سایہ کا ثبات توحید کا جلوہ ہیں حدوث اور قدم معدوم صفت ہے ذات قائم ہے بذات
خجلت سے مرا جاتا ہوں کیا زندہ ہوں اعمال سے اپنے سخت شرمندہ ہوں ساحر ہوں مرا حشر نہ جانے کیا ہو زشتی میں سیہ تاب سا تابندہ ہوں
یارب مرے دل کو عطا صدق و صفا ہو نقش صداقت سے فنا وہم ریا صیقل سے صفا کی صاف آ جائے نظر آئنۂ پر ضیا میں جلوہ تیرا
اے طینت عبث اب بدی سے باز آ اے حسن ارادت اپنا جلوہ دکھلا نیکی کا گزر نہ ہونے پایا دل میں انجام بخیر ہو جو حاصل ہو صفا
ہر سر میں یہ سودا ہے کہ میں ہی میں ہوں ہر دل میں سمایا ہے کہ میں ہی میں ہوں اس نفس نے سب کو کر دیا ہے گمراہ عرفاں یہ دکھاتا ہے کہ میں ہی میں ہوں
میں نفس پرستی سے سدا خوار رہا ظلمت کدۂ غم میں گرفتار رہا غفلت سے نہ دم بھر کو مری آنکھ کھلی بے ہوش رہا کبھی نہ ہشیار رہا
مردود خلائق ہوں گنہ گار ہوں میں پامال جہاں ہوں کہ سزاوار ہوں میں انجام جو خاک ہے اگر جیتے جی مل جاؤں نہ خاک میں تو بے کار ہوں میں
عالم کا وجود ہے نمود بے بود ہے آب سراب اس کی ہستی کی نمود نیرنگ طلسم اس کو کہنا ہے بجا ہے وہم میں موجود یقیں میں مفقود