سونے چاندی کی چمکتی ہوئی میزانوں میں
سونے چاندی کی چمکتی ہوئی میزانوں میں میرے جذبات کی تسکین نہیں ہو سکتی زندگی روز ازل سے ہے چھلکتا ہوا زہر زندگی لائق تحسین نہیں ہو سکتی
سونے چاندی کی چمکتی ہوئی میزانوں میں میرے جذبات کی تسکین نہیں ہو سکتی زندگی روز ازل سے ہے چھلکتا ہوا زہر زندگی لائق تحسین نہیں ہو سکتی
چھپ کے آئے گا کوئی حسن تخیل کی طرح آج کی رات چراغوں کو جلانا ہے منع کھول دو ذہن کے سہمے ہوئے دروازوں کو آج جذبات پہ لہروں کا بٹھانا ہے منع
اے کہ تخلیق بحر و بر کے خدا مجھ پہ کتنا کرم کیا تو نے میری کٹیا کے دیپ کی خاطر آندھیوں کو جنم دیا تو نے
دکھ بھری داستان ماضی کی حال کی بے رخی کا قصہ ہوں اے حقیقت کے ڈھونڈنے والے میں تری جستجو کا حصہ ہوں
کوئی تازہ الم نہ دکھلائے آنے والے خوشی سے ڈرتے ہیں لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں
پھر امڈ آئے ہیں یادوں کے سہانے بادل پھر دل زار میں اک شعلۂ ارماں جاگا میرے افکار کے بجھتے ہوئے ریزے چونکے میرے حرماں کا سلگتا ہوا عنواں جاگا
ہر ماہ لٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو چڑھنے لگا ہلال قضا دام چڑھ گئے اے وقت مجھ کو غیرت انساں کی بھیک دے روٹی میں بک گئی ہے ردا دام چڑھ گئے
اے ستاروں کے چاہنے والو آنسوؤں کے چراغ حاضر ہیں رونق جشن رنگ و بو کے لیے زخم حاضر ہیں داغ حاضر ہیں
جانے والے ہماری محفل سے چاند تاروں کو ساتھ لیتا جا ہم خزاں سے نباہ کر لیں گے تو بہاروں کو ساتھ لیتا جا
ایک بہکی ہوئی نظر تیری رخ نئی کونپلوں کے موڑ گئی ایک بے نام درد کی ٹھوکر چاندنی کے ظروف توڑ گئی