بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں
بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں اے فریب آرزو تیرے سہارے سو گئے جن کے دم سے بزم ساغرؔ تھی حریف کہکشاں اے شب ہجراں کہاں وہ ماہ پارے سو گئے
بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں اے فریب آرزو تیرے سہارے سو گئے جن کے دم سے بزم ساغرؔ تھی حریف کہکشاں اے شب ہجراں کہاں وہ ماہ پارے سو گئے
میں نے لوح و قلم کی دنیا کو جشن دار و صلیب سمجھا ہے اے تنفس کے جانچنے والے تجھ کو کتنا قریب سمجھا ہے
آہ! تیرے بغیر یہ مہتاب ایک بے سر کی لاش ہو جیسے کسی دوزخ کے آتشیں یہ پھل آتش آمیز قاش ہو جیسے
چشم کو اعتبار کی زحمت دل کو صبر و شکیب دیتا ہے آئنے میں نہ عکس ہستی دیکھ آئنہ بھی فریب دیتا ہے
وحشت دل نے کانچ کے ٹکڑے میری فردوس میں بکھیرے ہیں قریۂ ماہتاب کے جویا بستر خاک پر بسیرے ہیں
قافلے منزل مہتاب کی جانب ہیں رواں میری راہوں میں تری زلف کے بل آتے ہیں میں وہ آوارۂ تقدیر ہوں یزداں کی قسم لوگ دیوانہ سمجھ کر مجھے سمجھاتے ہیں
زندگی اور شراب کی لذت اک نرالا سرور دیتی ہے ایک کرتی ہے کاروبار خدا ایک ترغیب حور دیتی ہے
ایک شبنم کے قطرے کی تقدیر کو آزماتی رہی رات بھر چاندنی صبح دیکھا شگوفے تھے ٹوٹے ہوئے گل کھلاتی رہی رات بھر چاندنی
ہے احتساب وقت کی لٹکی ہوئی صلیب ہر روز جیسے روز جزا دام چڑھ گئے! نقد خرد سرور تمنا کا مول ہے ارماں کا رنگ زرد ہوا دام چڑھ گئے
ساقیا ایک جام پینے سے جنتیں لڑکھڑا کے ملتی ہیں لالہ و گل کلام کرتے ہیں رحمتیں مسکرا کے ملتی ہیں