Saghar Siddiqui

ساغر صدیقی

ساغر صدیقی کی غزل

    یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

    یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ...

    مزید پڑھیے

    روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    روداد محبت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے دو دن کی مسرت کیا کہئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنم رقصاں ہے بیداد مشیت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول ...

    مزید پڑھیے

    میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا

    میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی ...

    مزید پڑھیے

    زخم دل پر بہار دیکھا ہے

    زخم دل پر بہار دیکھا ہے کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے جن کے دامن میں کچھ نہیں ہوتا ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں زندگی کا وقار دیکھا ہے تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر گل کا سینہ فگار دیکھا ہے ساقیا! اہتمام بادہ کر وقت کو سوگوار دیکھا ہے جذبۂ غم کی خیر ہو ...

    مزید پڑھیے

    اے دل بے قرار چپ ہو جا

    اے دل بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدۂ اشک بار چپ ہو جا جا چکا کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا ہم فقیروں کا اس زمانے میں کون ہے غم گسار چپ ہو جا حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے حسرت ...

    مزید پڑھیے

    راہزن آدمی رہنما آدمی

    راہزن آدمی رہنما آدمی بارہا بن چکا ہے خدا آدمی ہائے تخلیق کی کار پردازیاں خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے دو قدم جھوم کر جب چلا آدمی زندگی خانقاہ شہود و بقا اور لوح مزار فنا آدمی صبح دم چاند کی رخصتی کا سماں جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی کچھ فرشتوں کی ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی

    وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی اک ترے وصل کی گھڑی ہوگی دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر کوئی برسات کی جھڑی ہوگی کیا خبر تھی کہ نوک خنجر بھی پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر چاندنی سے صبا لڑی ہوگی اے عدم کے مسافرو ہشیار راہ میں زندگی کھڑی ہوگی کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ...

    مزید پڑھیے

    غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

    غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں اور کوئی گناہ یاد نہیں سجدۂ بے خودی کے مجرم ہیں استغاثہ ہے راہ و منزل کا راہزن رہبری کے مجرم ہیں مے کدے میں یہ شور کیسا ہے بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں دشمنی آپ کی عنایت ہے ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی کو رسول کہتا ہوں

    چاندنی کو رسول کہتا ہوں بات کو با اصول کہتا ہوں جگمگاتے ہوئے ستاروں کو تیرے پاؤں کی دھول کہتا ہوں جو چمن کی حیات کو ڈس لے اس کلی کو ببول کہتا ہوں اتفاقاً تمہارے ملنے کو زندگی کا حصول کہتا ہوں آپ کی سانولی سی مورت کو ذوق یزداں کی بھول کہتا ہوں جب میسر ہوں ساغر و مینا برق پاروں ...

    مزید پڑھیے

    ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

    ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4