Saghar Siddiqui

ساغر صدیقی

ساغر صدیقی کی غزل

    پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے

    پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دئیے غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دئیے اڑتا ہوا غبار سر راہ دیکھ کر انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دئیے بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دئیے رنگ ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو

    چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو چشم ساقی سے کہو تشنہ امیدوں کے لیے تم بھی کچھ بادہ گساروں کی ردائیں سی لو ہر برس سوزن تقدیر چلا کرتی ہے اب تو کچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو لوگ کہتے ہیں تقدس کے سبو ٹوٹیں گے جھومتی راہ گزاروں کی ردائیں سی ...

    مزید پڑھیے

    بات پھولوں کی سنا کرتے تھے

    بات پھولوں کی سنا کرتے تھے ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے مشعلیں لے کے تمہارے غم کی ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے اب کہاں ایسی طبیعت والے چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے ترک احساس محبت مشکل ہاں مگر اہل وفا کرتے تھے بکھری بکھری ہوئی زلفوں والے قافلے روک لیا کرتے تھے آج گلشن میں شگوفے ...

    مزید پڑھیے

    لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے

    لا اک خم شراب کہ موسم خراب ہے کر کوئی انقلاب کہ موسم خراب ہے زلفوں کو بے خودی کی ردا میں لپیٹ دے ساقی پئے شباب کہ موسم خراب ہے جام و سبو کے ہوش ٹھکانے نہیں رہے مطرب اٹھا رباب کہ موسم خراب ہے غنچوں کو اعتبار طلوع چمن نہیں رخ سے الٹ نقاب کہ موسم خراب ہے اے جاں! کوئی تبسم رنگیں کی ...

    مزید پڑھیے

    متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں

    متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ...

    مزید پڑھیے

    مسکراؤ بہار کے دن ہیں

    مسکراؤ بہار کے دن ہیں گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں دختران چمن کے قدموں پر سر جھکاؤ بہار کے دن ہیں مے نہیں ہے تو اشک غم ہی سہی پی بھی جاؤ بہار کے دن ہیں تم گئے رونق بہار گئی تم نہ جاؤ بہار کے دن ہیں ہاں کوئی واردات ساغر و مے کچھ سناؤ بہار کے دن ہیں

    مزید پڑھیے

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا ہر چیز زمانے کی آئینۂ دل ہوتی خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا تم حال پریشاں کی پرسش کے لیے آتے صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا احساس ...

    مزید پڑھیے

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے اب تو ان کا طور پر ...

    مزید پڑھیے

    ہر مرحلۂ شوق سے لہرا کے گزر جا

    ہر مرحلۂ شوق سے لہرا کے گزر جا آثار تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سن فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گزر جا مایوس ہیں احساس سے الجھی ہوئی راہیں پائل دل مجبور کی چھنکا کے گزر جا یزدان و اہرمن کی حکایات کے بدلے انساں کی روایات کو دہرا کے گزر جا کہتی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4