Saghar Khayyami

ساغر خیامی

طنز و مزاح کے مقبول شاعر

Well-known poet of humour and satire.

ساغر خیامی کی رباعی

    گدھوں کا مشاعرہ

    اک رات میں نے خواب میں دیکھا یہ ماجرا اک جا پہ ہو رہا ہے گدھوں کا مشاعرہ وہ نیلے پیلے قمقمے میداں ہرا بھرا بیٹھا ہے فرش سبز پہ اک سرمئی گدھا جتنے گدھے ہیں سب کے تخلص ہیں واہیات کونے میں بیٹھی دم کو ہلاتی ہیں خریات کچھ موٹے تازے خر تھے کئی لاغر و نحیف کچھ فنے خاں گدھے تھے کئی ...

    مزید پڑھیے

    اکیسویں صدی کا آدمی

    دنیا ترقیوں پہ ہے معبود کی قسم انسان کر رہا ہے ترقی قدم قدم رکھیں گے اس طرح قد بالا کو میڈیم لمبے منش سے باندھ کے ناٹے کی اب قلم ڈھل جائیں گے شباب سے پہلے جو اپنے سن گملوں میں بوئے جائیں گے بچے بھی ایک دن انساں نے آسمان پہ قبضہ دکھا دیا اس آدمی کے خون کو اس میں چڑھا دیا عورت کا مغز ...

    مزید پڑھیے

    ٹمپریری جاب

    بن گیا ہوں میں منسٹر رات کو دیکھا یہ خواب سامنے رکھے ہیں میرے ٹوسٹ مکھن اور شراب سامنے بیٹھی ہوئی ہے اک حسیں سی چھوکری کہہ رہی ہے با ادب ہوں آپ کی سکریٹری کالی آنکھیں گورے عارض زلف مانند سحاب شوخ لب وہ شوخ لہجہ مست آنکھوں میں شراب شرم سے بوجھل وہ آنکھیں لب پہ ہلکی سی ہنسی گورے ...

    مزید پڑھیے

    مغز شاعر

    اک روز ڈاکٹر سے یہ میں نے کہا جناب مدت سے کہہ رہا ہوں میں نظمیں بہت خراب چیک کر کے میری کھوپڑی کہنے لگا حضور بھیجے میں گھس گیا ہے کوئی آپ کے فتور بولا بدلنا ہوگا یہ بھیجا حضور کا بس ہے یہی علاج دماغی فتور کا میں نے کہا دماغ کہاں اور کہاں حقیر بولا کہ دان مانگیے پھر دیکھیے شریر میں ...

    مزید پڑھیے

    دلی کی بس

    تھرتھراتی کانپتی آئی جو بس اسٹاپ پر چڑھ گیا بونٹ پہ کوئی اور کوئی ٹاپ پر صورتاً سجن منش لیکن نظر تھی پاپ پر حشر کا ہنگام تھا غالب تھے بیٹے باپ پر کروٹوں سے بس کی بس میں اور ہلچل ہو گئی داستان عشق کتنوں کی مکمل ہو گئی ہو گیا تھا بھیڑ سے ہر شخص بس میں چڑچڑا ایک ہی بس میں کھڑا تھا شہر ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے

    بیٹھے ہیں ایسے زلف میں کلیاں سنوار کے آئے ہوں جیسے ان کے لئے دن بہار کے اے تیز رو زمانے تجھے کچھ خبر بھی ہے لمحے صدی بنے ہیں شب انتظار کے باقی رہے نہ گلشن و گل اور نہ آشیاں لیکن ہیں چار سو وہی چرچے بہار کے اے رہ روان گور غریباں خموش ہو سوئے ہیں سونے والے شب غم گزار کے اے سالکان ...

    مزید پڑھیے

    علاء الدین کا توبوز

    یقیں ہے جائے گی اک روز جان دلی میں تلاش کرتے ہوئے اک مکان دلی میں تمام دن کے سر راہ ہم تھکے ہارے شکم میں چوہے اچھلتے تھے بھوک کے مارے بڑا تھا میرا شکم دوستو میں کیا کرتا رقم تھی جیب میں کم دوستو میں کیا کرتا چلا خرید کے توبوز سوئے دشت حقیر لگی جو پاؤں میں ٹھوکر سنور گئی تقدیر غم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4