رفتہ رفتہ ہر پولس والے کو شاعر کر دیا
رفتہ رفتہ ہر پولس والے کو شاعر کر دیا محفل شعر و سخن میں بھیج کر سرکار نے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے
طنز و مزاح کے مقبول شاعر
Well-known poet of humour and satire.
رفتہ رفتہ ہر پولس والے کو شاعر کر دیا محفل شعر و سخن میں بھیج کر سرکار نے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب عشق لڑا لیتے تھے پیار کی ڈور کو چرخی پہ چڑھا لیتے تھے
دیوانگئ عشق پہ الزام کچھ بھی ہو دل دے دیا ہے آپ کو انجام کچھ بھی ہو دل کو یقیں ہے جذبۂ دیدار کی قسم وہ آئے گا ضرور سر بام کچھ بھی ہو آندھی کی زد پہ رکھ تو دیا ہے چراغ دل روشن رہے کہ گل ہو سر شام کچھ بھی ہو دل کو تو اعتماد ہے ساقی کی ذات پر اب زہر دے کہ وہ مئے گلفام کچھ بھی ہو ساغرؔ ...
شیخ صاحب کی نصیحت بھری باتوں کے لئے کتنا رنگین جواب آپ کی انگڑائی ہے
انجینئر کریں گے اگر ڈاکٹر کا کام پھر جان لیں مریض کی ہے زندگی تمام
بیٹھا ہوا تھا گھر میں کہ دستک کسی نے دی دیکھا لنگوٹ باندھے ہوئے موت ہے کھڑی کھولے ہوئے ہے منہ کو کسی غار کی طرح بکھرے ہوئے ہیں بال شب تار کی طرح چنگل میں ہیں پھنسے ہوئے یاران تیز رو جیبوں سے جھانکتے ہیں اسیران نو بہ نو کپڑے کے تھان سے بڑی ہاتھوں میں نان ہے دانتوں تلے دبی ہوئی ...
ہر تمنا کی کسک کو بس مٹا دیتا ہے وقت زخم جو دل پر لگے تھے سب وہ اچھے ہو گئے میں بھی اپنے گھر میں خوش ہوں وہ بھی اپنے گھر میں شاد میں بھی ابا بن گیا ان کے بھی بچے ہو گئے
اب جشن اشک اے شب ہجراں کریں گے ہم اپنی تباہیوں پہ چراغاں کریں گے ہم خود تو کبھی نہ آئے گی ہونٹوں پہ اب ہنسی ہاں دوسروں کے ہنسنے کا ساماں کریں گے ہم کیا تھی خبر کہ حد سے گزر جائے گا جنوں ہاتھوں سے اپنے چاک گریباں کریں گے ہم پھر جامۂ جنوں کی کریں گے رفوگری پھر انتظار فصل بہاراں ...
دل جل رہے ہیں دوستو غم کے الاؤ میں بچے بھی مبتلا ہیں دماغی تناؤ میں پانی کی طرح بہتی ہے دولت چناؤ میں یکجہتی کا تو نام نہیں رکھ رکھاؤ میں اک آدمی کے واسطے پتلون، شرٹ، کوٹ اک آدمی کے واسطے ممکن نہیں لنگوٹ اک گھر میں اتنی روٹیاں کھائے نہیں بنیں اک گھر کا ہے یہ حال کہ ستو نہیں ...
تصویر آج دیکھ کے عہد شباب کی اتنا ہنسا کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے