رحمت کی کڑی دھوپ میں لیٹوں مولیٰ
رحمت کی کڑی دھوپ میں لیٹوں مولیٰ رومال میں خرمن کو لپیٹوں مولیٰ اب اور مجھے بخش کے حیران نہ کر دے اتنا کہ جتنا میں سمیٹوں مولیٰ
رحمت کی کڑی دھوپ میں لیٹوں مولیٰ رومال میں خرمن کو لپیٹوں مولیٰ اب اور مجھے بخش کے حیران نہ کر دے اتنا کہ جتنا میں سمیٹوں مولیٰ
سچائی پہ اک نگاہ کر لوں یارب اب درد کی حد ہے آہ کر لوں یارب رکھنے کو تری شان کریمی کی لاج معمولی سا اک گناہ کر لوں یارب
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا اب تک شب ہستی میں نہ سونا میرا خطاطی ادھر ہے تو ادھر نقاشی وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا
شہباز نبی چرخ پہ منڈلایا تھا اک پل کو نظر اس کا جو پر آیا تھا تو چاہ ابوجہل کا بوڑھا مینڈک کہتے ہیں بڑے زور سے ٹرایا تھا
محراب کی پرچھائیاں تڑپاتی ہیں گنبد کی یہ گولائیاں چھا جاتی ہیں آتی ہیں ترے جسم کی دل میں یادیں یہ کیسی عمارات نظر آتی ہیں
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے
لکھے ہیں فقیر نے جو شاہی الفاظ یوں کرتے ہیں دزدیدہ نگاہی الفاظ حسن لب و رخسار کا ہے لوح پہ رنگ اور ہیں خم گیسو کی سیاہی الفاظ
وہ جس کو محبت کی روش کہتے ہیں جذبات کی ہم اس کو تپش کہتے ہیں وہ چیز جسے حسن سمجھتے وہ ہیں اس کو ہی تو ہم جنسی کشش کہتے ہیں
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں خود گیر ہوں خود نگر ہوں خود گر میں ہوں
ان کی تو یہ عرفانی منازل میں سے ہے اور میرے بھی وجدانی مراحل میں سے ہے خطاطی میں کرتا ہوں کہ یہ بھی دوست اسلاف کے روحانی مشاغل میں سے ہے