تخلیق کے سقف و بام پاٹے جائیں
تخلیق کے سقف و بام پاٹے جائیں یاقوت کے پس خوردہ کو چاٹے جائیں مخلوق خدا چوم رہی ہے مرے ہاتھ کاتب یہ مگر کہتے ہیں کاٹے جائیں
تخلیق کے سقف و بام پاٹے جائیں یاقوت کے پس خوردہ کو چاٹے جائیں مخلوق خدا چوم رہی ہے مرے ہاتھ کاتب یہ مگر کہتے ہیں کاٹے جائیں
دلی سے وہ جا رہا تھا جس دم قندھار لاہور کی مہ وشوں پہ سن تو اے یار میں نے ہی نہیں مجھ سے صدیوں پہلے تھے طالبؔ آملی نے لکھے اشعار
اس ہستیٔ منجلی سے ورثے میں ملا اللہ کے اس ولی سے ورثے میں ملا قرآن کی آیات کو لکھنے کا یہ شوق مجھ کو حضرت علی سے ورثے میں ملا
ہاں جملہ فنون زندگانی سیکھے گر کیسے کریں خون کو پانی سیکھے صحراؤں میں ہاں ناگ پھنی سے جا کر ہم نے یہ اصول سخت جانی سیکھے
گیسو میں وہ سنبل کے چمن ہیں معلوم سینڈے میں وہ نکلتے جو سمن ہیں معلوم وہ جو ترے حمام میں آئینے ہیں ان کو ترے سب راز بدن ہیں معلوم
ہاں مفتئ شہر نے فتوے بھیجے اور مجھ کو حسینوں نے لفافے بھیجے نیلے کاغذ پہ اپنے کچے خط میں فن پر مرے لکھ لکھ کے قصیدے بھیجے
ساقی نے ہمیں ساغر جم بخشے ہیں ہاتھوں میں سیہ زلف کے خم بخشے ہیں مولیٰ نے حسینوں سے وفا کے بدلے دنیا میں ہمیں لوح و قلم بخشے ہیں
تو ہے کہ ایلورا کی کوئی مورتی ہے اتنی جو بدن کی تری خوبصورتی ہے اعضائے نمودار کی گولائی سے رہ رہ کے تری جنسی کشش گھورتی ہے
تحسین کے تحفے مجھے صائبؔ دیتا شاباش مجھے عرفیؔ یا طالبؔ دیتا خط کی مرے داد آج جو زندہ ہوتے یا شاہجہاںؔ دیتا یا غالبؔ دیتا
پھولوں کی ملی بلخ سے تھالی مجھ کو بغداد میں زیتون کی ڈالی مجھ کو لاہور میں دی گئی ہے لیکن اے دوست خطاطی کے اعجاز پہ گالی مجھ کو