ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے
ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے ہوں بحر سے نابلد یہ عالم کیا ہے معلوم قسم خدا کی مجھ کو یہ نہیں اخرب کسے کہتے ہیں اخرم کیا ہے
ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے ہوں بحر سے نابلد یہ عالم کیا ہے معلوم قسم خدا کی مجھ کو یہ نہیں اخرب کسے کہتے ہیں اخرم کیا ہے
اک بولتی صورت کا نمونہ کیا ہے چلتی ہوئی مورت کا نمونہ کیا ہے مرمر کی یہ محراب منارے گنبد تو فن عمارت کا نمونہ کیا ہے
ہر حرف میں مہ پاروں کے قد بنتے ہیں لوحوں پہ وہ اک حسن کی حد بنتے ہیں کاکل کے خیال ہی میں لکھا ہوں لام ابرو کے تصور میں ہی حد بنتے ہیں
ہم سانپ پکڑ لیتے ہیں بینوں کے بغیر فصلیں بھی اگاتے ہیں زمینوں کے بغیر ہم اہل کرامات کا لیکن یارو دل ہی نہیں لگتا ہے حسینوں کے بغیر
میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں جو زہر کہ واعظ نے ہے اگلا اس سے تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں
اس شام وہ سر میں درد سہنا اس کا میں پاس ہوا تو دور رہنا اس کا مجھ سے ذرا شرما کے ''طبیعت میری کچھ آج ہے ناساز'' یہ کہنا اس کا
شاگرد کسی کا ہوں نہ استاد ہوں میں کرتا ہوا تخلیق اور ایجاد ہوں میں لیلائے ہنر ہے اگر بنت لاہور پھر واقعی لاہور کا داماد ہوں میں
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں پھر تو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے کوئی مرا ہم نام نہیں دنیا میں
عاشق کے لئے رنج و الم رکھے ہیں شاہوں کے لئے تاج و علم رکھے ہیں ''میرے لیے کیا چیز ہے'' میں نے پوچھا آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں