ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے
ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے ہوں بحر سے نابلد یہ عالم کیا ہے معلوم قسم خدا کی مجھ کو یہ نہیں اخرب کسے کہتے ہیں اخرم کیا ہے
ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے ہوں بحر سے نابلد یہ عالم کیا ہے معلوم قسم خدا کی مجھ کو یہ نہیں اخرب کسے کہتے ہیں اخرم کیا ہے
اک بولتی صورت کا نمونہ کیا ہے چلتی ہوئی مورت کا نمونہ کیا ہے مرمر کی یہ محراب منارے گنبد تو فن عمارت کا نمونہ کیا ہے
ہر حرف میں مہ پاروں کے قد بنتے ہیں لوحوں پہ وہ اک حسن کی حد بنتے ہیں کاکل کے خیال ہی میں لکھا ہوں لام ابرو کے تصور میں ہی حد بنتے ہیں
ہم سانپ پکڑ لیتے ہیں بینوں کے بغیر فصلیں بھی اگاتے ہیں زمینوں کے بغیر ہم اہل کرامات کا لیکن یارو دل ہی نہیں لگتا ہے حسینوں کے بغیر
میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں جو زہر کہ واعظ نے ہے اگلا اس سے تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں