اندوہ شباب ٹالنے کو خم ہوں
اندوہ شباب ٹالنے کو خم ہوں میں قلب و جگر سنبھالنے کو خم ہوں دونوں مرے پاؤں ہو گئے ہیں بے کار خار پیری نکالنے کو خم ہوں
مرثیہ ، غزل اور رباعی کے ممتاز شاعر - میر انیس کے نواسے
A distinguished poet of Marsiya, Ghazal and Rubaai. Grandson of Mir Anis.
اندوہ شباب ٹالنے کو خم ہوں میں قلب و جگر سنبھالنے کو خم ہوں دونوں مرے پاؤں ہو گئے ہیں بے کار خار پیری نکالنے کو خم ہوں
کب تک میں رنج و غم کی شدت دیکھوں تا کے اپنے پہ یہ مصیبت دیکھوں گردوں نے پیر کر دیا ہے مجھ کو خم ہوں کہ بس اب نہ اس کی صورت دیکھوں
نامی ہوئے بے نشان ہونے کے لیے افسانہ ہوئے بیان ہونے کے لیے کی موت قبول خواہش جنت میں ہم پیر ہوئے جوان ہونے کے لیے
پیری میں حواس و ہوش سب کھوتے ہیں کب عہد جوانی کے لیے روتے ہیں ہشیار شباب میں تھے پیری میں ہیں غش شب بھر جاگے تھے صبح کو سوتے ہیں
کچھ اہل زمیں حال نیا کہتے ہیں اچھا کہتے ہیں یا برا کہتے ہیں پیری کہتی ہے تیری مطلب کی ہے بات جھک کے سنتا ہوں میں کہ کیا کہتے ہیں
دنیا سے سبھی برے بھلے جائیں گے کیا خلق سے جز گناہ لے جائیں گے پیری سے ہیں خم حشر میں دیکھے گا کون جنت میں جھکے جھکے چلے جائیں گے
طفلی نے بے خودی کا آغاز کیا قوت پہ شباب نے بڑا ناز کیا پاؤں کی طرف سر کو جھکایا ہے رشیدؔ جس وقت سے پیروی نے سرفراز کیا
احباب ملاقات کو جو آتے ہیں ناحق مجھے غم دے کے چلے جاتے ہیں مجھ کو ہے وہی شام جوانی کا خیال اب صبح ہے میرے منہ پہ فرماتے ہیں
اب اور زمین و آسماں پیدا ہو قدرت سے نیا اک جہاں پیدا ہو اس واسطے یہ دعائیں کرتا ہوں رشیدؔ شاید مرا کوئی قدرداں پیدا ہو
معلوم تھا تکلیف سوا گزرے گی تا قبر نہ راحت سے ذرا گزرے گی کچھ بھی نہ جوانی نے کہا وقت وداع اتنا نہ بتا گئی کہ کیا گزرے گی