Rasheed lakhnavi

رشید لکھنوی

مرثیہ ، غزل اور رباعی کے ممتاز شاعر - میر انیس کے نواسے

A distinguished poet of Marsiya, Ghazal and Rubaai. Grandson of Mir Anis.

رشید لکھنوی کی غزل

    جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں

    جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں سب چپ ہیں اب کسی کی کوئی گفتگو نہیں نکلے جو قلب سے وہ مری آرزو نہیں تو مل ہی جائے گر تو میں سمجھوں کہ تو نہیں آنکھیں لڑا رہے ہو سر بزم غیر سے اور مجھ سے یہ بیان کہ ہم جنگ جو نہیں پیدا ہوا ہے ایک کی ضد ایک خلق میں عزت ہے غیر کی تو مری آبرو نہیں ٹانکے ...

    مزید پڑھیے

    تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے

    تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے جو شاخ پھلی ہے وہ بر آورد چمن ہے گلشن سے عنادل کو قفس میں ہے سوا چین آرام جہاں ہو وہ غریبوں کا وطن ہے ہے عالم طفلی سے عیاں موت کا ساماں غنچے کا جو ملبوس ہے وہ گل کا کفن ہے ہے حکم کہ مرنے میں نہ اب دیر لگائیں یہ قید فقط بہر اسیران کہن ہے اے ضعف یہ ...

    مزید پڑھیے

    جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی

    جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی سر شوریدہ خود کرنے لگا تدبیر پتھر کی یہ مشکل کس طرح حل ہو نہیں شمشیر پتھر کی دل صیاد پتھر گردن نخچیر پتھر کی بنا آئینہ چمکی کس قدر تقدیر پتھر کی تمہارے روبرو آیا زہے توقیر پتھر کی ہمارے جوش وحشت نے یہ ہم کو رنگ دکھلایا نہ کچھ تقصیر لڑکوں کی ...

    مزید پڑھیے

    وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا

    وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا دل یہ کہتا ہے کہ قابو سے نکل جاؤں گا آتش عشق بڑھی جاتی ہے بیٹھو دم بھر گرم رفتار رہو گے تو میں جل جاؤں گا انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا دل سے کہتا ہے شب وصل یہی شوق وصال میں وہ ارمان نہیں ہوں کہ نکل جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے

    ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے بند آنکھیں ہیں کہ اے یار نظر میں تو ہے دم بہ دم کہتے ہو کیوں فکر میں ناحق تو ہے غم کو کیا کام مرا سر ہے مرا زانو ہے اس لیے دل کے طلب کرنے پہ میں روتا ہوں تر نہ ہو آپ کا دامن کہ یہ اک آنسو ہے آج پھر کل کی طرح ہجر کی رات آتی ہے دیکھیے کیا ہو وہی دل ...

    مزید پڑھیے

    بڑھا یہ شک کہ غیروں کہ تن میں آگ لگی

    بڑھا یہ شک کہ غیروں کہ تن میں آگ لگی ہم آئے کیا کہ تری انجمن میں آگ لگی ذرا جو اس نے ہٹائی نقاب چہرے سے گری وہ برق کی سب انجمن میں آگ لگی برابر آج خبر اشک گرم لاتے ہیں غضب کی قصر دل پر محن میں آگ لگی یہ تیرا وحشیٔ آتش نفس جہاں پہنچا پہاڑ جل کے ہوئے خاک بن میں آگ لگی جلا رہا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4