سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے
سودائے سجدہ شام و سحر میرے سر میں ہے اے بت کشش کچھ ایسی ترے سنگ در میں ہے میں کب ہوں یہ مرا تن بے جاں حضر میں ہے روح روان قالب تن تو سفر میں ہے یہ ایک اثر تو ادویۂ چارہ گر میں ہے شدت اب اور بھی مرے درد جگر میں ہے سودائے عشق زلف سیہ جس کے سر میں ہے کب مطلق امتیاز اسے نفع و ضرر میں ...