Rais Amrohvi

رئیس امروہوی

رئیس امروہوی کی غزل

    سفر میں کوئی رکاوٹ نہیں گدا کے لئے

    سفر میں کوئی رکاوٹ نہیں گدا کے لئے کھلا ہوا ہے ہر اک راستہ ہوا کے لئے یہ پوچھتی ہے ہر اک صبح آ کے موج نسیم کوئی پیام کسی یار آشنا کے لئے طواف دیر و حرم سے تو ہو چکے فارغ چلو زیارت یاران با صفا کے لئے میں کیوں نہ با سر عریاں پھروں تہ افلاک کہ فخر ہے سر عریاں برہنہ پا کے لئے یہ شہر ...

    مزید پڑھیے

    دل سے یا گلستاں سے آتی ہے

    دل سے یا گلستاں سے آتی ہے تیری خوشبو کہاں سے آتی ہے کتنی مغرور ہے نسیم سحر شاید اس آستاں سے آتی ہے خود وہی میر کارواں تو نہیں بوئے خوش کارواں سے آتی ہے ان کے قاصد کا منتظر ہوں میں اے اجل! تو کہاں سے آتی ہے شکوہ کیسا کہ ہر بلا اے دوست! جانتا ہوں جہاں سے آتی ہے ہو چکیں آزمائشیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ فقط شورش ہوا تو نہیں

    یہ فقط شورش ہوا تو نہیں کوئی مجھ کو پکارتا تو نہیں بول اے اختر غنودۂ‌ صبح کوئی راتوں کو جاگتا تو نہیں سن کہ یہ مدد و جزر‌ ساحل بحر ماجراؤں کا ماجرا تو نہیں ذہن پر ایک کھردری سی لکیر کنکھجورے کا راستا تو نہیں ریت پر چڑھ رہی ہے ریت کی تہہ بابل و مصر و نینوا تو نہیں نوک ہر خار و ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر شہر بلا بھی ہے کینہ ساز کے ساتھ

    یہ شہر شہر بلا بھی ہے کینہ ساز کے ساتھ نکل چلو کسی محبوب دل نواز کے ساتھ یہی نوائے عدم ہے یہی نوازش کن خوشا حکایت‌ نے حرف نے نواز کے ساتھ سوئے‌ نگار و سوئے شہر زر نگار چلیں قلندران ہوسناک و پاک باز کے ساتھ سلام ہم نفسو الفراق ہم سفرو سفر ہے دور کا وہ بھی رہ دراز کے ساتھ یہ ...

    مزید پڑھیے

    رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر

    رقصاں ہے منڈیر پر کبوتر دیوار سی گر رہی ہے دل پر ٹہنی پہ خموش اک پرندہ ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر اڑتے ہیں ہوا کی سمت ذرے یادوں کے چلے ہیں لاؤ لشکر پیڑوں کے گھنے مہیب سائے یہ کون ہے مجھ پہ حملہ آور پتوں میں جھپک رہی ہیں آنکھیں شاخوں میں چمک رہے ہیں خنجر یہ کون قریب آ رہا ہے خود ...

    مزید پڑھیے

    گرد میں اٹ رہے ہیں احساسات

    گرد میں اٹ رہے ہیں احساسات دھیمے دھیمے برس رہی ہے رات جل اٹھا اک چراغ شام تو کیا بجھ گئے بے شمار امکانات ہائے ماضی کی دل نشیں یادیں ہائے خونخوار بھیڑیوں کی برات چیونٹیاں جیسے ذہن پر رینگیں اف یہ میرے لطیف احساسات بھوت بن کر مجھے ڈراتی رہیں میری نا آفریدہ تخلیقات کون آیا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کو کیا خبر؟ مری دنیا پھر آ گئی

    دنیا کو کیا خبر؟ مری دنیا پھر آ گئی وہ روح ناز و جان تمنا پھر آ گئی اے روح قیس! تہنیت شوق دے مجھے لیلیٰ پھر آ گئی مری لیلیٰ پھر آ گئی اب اور کیا ہے چشم تماشا کی آرزو وہ آرزوئے چشم تماشا پھر آ گئی کہتے ہوئے کہ آپ کے صرف آپ کے لئے سب سے بچھڑ کے آپ کی عذرا پھر آ گئی روٹھے ہوئے تھے آپ ...

    مزید پڑھیے

    اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل

    اہرمن ہے نہ خدا ہے مرا دل حجرۂ ہفت بلا ہے مرا دل مہبط روح ازل میرا دماغ اور آسیب زدہ ہے مرا دل سر جھکا کر مرے سینے سے سنو کتنی صدیوں کی صدا ہے مرا دل اجنبی زاد ہوں اس شہر میں میں اجنبی مجھ سے سوا ہے مرا دل آؤ قصد سفر نجد کریں راہ ہے راہنما ہے مرا دل چند بے نام و نشاں قبروں ...

    مزید پڑھیے

    ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں

    ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں پہلے منزل پس منزل پس منزل اور پھر راستے ڈوب گئے عالم تنہائی میں گاہے گاہے کوئی جگنو سا چمک اٹھتا ہے میرے ظلمت کدۂ انجمن آرائی میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں خود اپنی بصارت کی حدود کھو گئی ہیں مری نظریں مری بینائی ...

    مزید پڑھیے

    جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں

    جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں سنا ہر بار میرا کلمۂ صدق مگر ہر بار جھٹلایا گیا ہوں کبھی ماضی کا جیسے تذکرہ ہو زباں پر اس طرح لایا گیا ہوں ابھی تدفین باقی ہے ابھی تو لہو سے اپنے نہلایا گیا ہوں دوامی عظمتوں کے مقبرے میں ہزاروں بار دفنایا گیا ہوں ترس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4