Rais Amrohvi

رئیس امروہوی

رئیس امروہوی کی غزل

    رئیسؔ اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا

    رئیسؔ اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا حضور دوست کچھ گستاخ ہو لیتے تو اچھا تھا جدائی میں یہ شرط ضبط غم تو مار ڈالے گی ہم ان کے سامنے کچھ دیر رو لیتے تو اچھا تھا بہاروں سے نہیں جن کو توقع لالہ و گل کی وہ اپنے واسطے کانٹے ہی بو لیتے تو اچھا تھا ابھی تو نصف شب ہے انتظار صبح نو ...

    مزید پڑھیے

    بلند و پست میں منزل ہمیں کہیں نہ ملی

    بلند و پست میں منزل ہمیں کہیں نہ ملی جو آسمان سے نازل ہوئے زمیں نہ ملی گلہ نہیں کہ ترا سنگ آستاں نہ ملا! یہ ہے کہ دیدۂ تر کو وہ آستیں نہ ملی کبھی جو شانۂ عقدہ کشا نصیب ہوا تو اس کی زلف گرہ گیر و عنبریں نہ ملی بجا کہ جان زلیخا تھے مصر میں یوسف مگر جو بات تھی کنعاں میں وہ کہیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے

    زمیں پر روشنی ہی روشنی ہے خلا میں اک کرن گم ہو گئی ہے میں تنہا جا رہا ہوں سوئے منزل یہ پرچھائیں کہاں سے آ رہی ہے یہ شام اور روشنی کی یہ قطاریں اداسی اور گہری ہو گئی ہے عروج ماہ ہے اور مقبروں پر ابد کی چاندنی چٹکی ہوئی ہے ابھار اے موج طوفاں خیز مجھ کو یہ کشتی ریت میں ڈوبی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    اب دل کی یہ شکل ہو گئی ہے

    اب دل کی یہ شکل ہو گئی ہے جیسے کوئی چیز کھو گئی ہے پہلے بھی خراب تھی یہ دنیا اب اور خراب ہو گئی ہے اس بحر میں کتنی کشتیوں کو ساحل کی ہوا ڈبو گئی ہے گل جن کی ہنسی اڑا چکے تھے! شبنم بھی انہیں کو رو گئی ہے کل سے وہ اداس اداس ہیں کچھ شاید کوئی بات ہو گئی ہے شاداب ہے جس سے کشت ہستی وہ ...

    مزید پڑھیے

    دیدنی ہے بہار کا منظر

    دیدنی ہے بہار کا منظر زہر چھڑکا گیا درختوں پر بن رہے ہیں عروس گل کا کفن مگس برگ‌ و عنکبوت شجر چیل کوؤں کو تاکتے رہئے چاند تاروں سے تھک گئی ہے نظر جو مرا تکیہ جوانی تھا اسی برگد کی جھک گئی ہے کمر ہاتھ پھیلا کے چیختے ہیں درخت صرصر حادثہ کا رخ ہے کدھر سرخ پھولوں کے لال ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ ہے دل گیتی سیاہ تر ہو جائے

    سیاہ ہے دل گیتی سیاہ تر ہو جائے خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے کچھ اس ادا سے چلے باد برگ ریز خزاں کہ دور تک صف اشجار بے ثمر ہو جائے بجائے رنگ رگ غنچہ سے لہو ٹپکے کھلے جو پھول تو ہر برگ گل شرر ہو جائے پڑے جو ہاتھ چمن میں بہ قصد گل چینی مثال پنجۂ قصاب خوں میں تر ہو جائے فروغ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے کو تلاش کر رہا ہوں

    اپنے کو تلاش کر رہا ہوں اپنی ہی طلب سے ڈر رہا ہوں تم لوگ ہو آندھیوں کی زد میں میں قحط ہوا سے مر رہا ہوں خود اپنے ہی قلب خونچکاں میں خنجر کی طرح اتر رہا ہوں اے شہر خیال کے مسافر کیا میں ترا ہم سفر رہا ہوں دیوار پہ دائرے ہیں کیسے یہ کون ہے کس سے ڈر رہا ہوں میں شبنم چشم تر سے اے ...

    مزید پڑھیے

    رئیسؔ ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے

    رئیسؔ ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے ہمارے ساتھ ہزاروں بلا نصیب چلے رفاقتوں کی سعادت لئے رفیق آئے رقابتوں کی نحوست لئے رقیب چلے جو قافلے کہ ہماری طلب میں نکلے تھے کبھی بعید سے گزرے کبھی قریب چلے عقب میں حادثۂ صبح و شام کے عفریت جلو میں گردش ایام کے نقیب چلے جہاں کو جن کے نصیبے پہ ...

    مزید پڑھیے

    مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے

    مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے جو اجنبی تھے وہی اپنے رازداں نکلے حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دیر راہب میں تو اہل دیر ہمارے مزاج داں نکلے بہت قریب سے دیکھا جو فوج اعدا کو تو ہر قطار میں یاران مہرباں نکلے قلندروں سے ملا مژدۂ سبک روحی جو بزم ہوش سے نکلے تو سر گراں نکلے قبیلۂ حرم و ...

    مزید پڑھیے

    بتا کیا کیا تجھے اے شوق حیراں یاد آتا ہے

    بتا کیا کیا تجھے اے شوق حیراں یاد آتا ہے وہ جان آرزو وہ راحت جاں یاد آتا ہے پریشاں خاطری حد سے گزرتی ہے تو وحشت کو کسی کا عالم زلف پریشاں یاد آتا ہے گزرتا ہے کبھی جب چودھویں کا چاند بدلی سے مہین آنچل میں ان کا روئے تاباں یاد آتا ہے اندھیری رات میں جگنو چمکتے ہیں تو رہ رہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4