رئیسؔ اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا
رئیسؔ اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا حضور دوست کچھ گستاخ ہو لیتے تو اچھا تھا جدائی میں یہ شرط ضبط غم تو مار ڈالے گی ہم ان کے سامنے کچھ دیر رو لیتے تو اچھا تھا بہاروں سے نہیں جن کو توقع لالہ و گل کی وہ اپنے واسطے کانٹے ہی بو لیتے تو اچھا تھا ابھی تو نصف شب ہے انتظار صبح نو ...