Qayem Chaandpuri

قائم چاندپوری

اٹھارہویں صدی کے ممتاز شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر

Prominent 18th century poet, contemporary of Mir Taqi Mir.

قائم چاندپوری کی غزل

    زاہد در مسجد پہ خرابات کی تو نے

    زاہد در مسجد پہ خرابات کی تو نے جی بھی یوں ہی چاہے تھا کرامات کی تو نے جانے دے بس اب یار کہ یہ بھی نہیں کچھ کم اعمال کی دل کے جو مکافات کی تو نے ایدھر تو میں نالاں ہوں ادھر غیر نہ جانے اب کس سے مری جان ملاقات کی تو نے اللہ ری محبت تری تعلیم کہ جو بات دشوار تھی مجھ پر سو مساوات کی ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے

    نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے کچھ اک ڈھیر ہڈیوں کا یا کھال ہے جو بیٹھے تو ہے روئے قالیں کا نقش کھڑا ہو تو کاغذ کی تمثال ہے کھٹکتا ہے پہلو میں یوں ہم نشیں کہے تو یہ دل تیر کی بھال ہے گرفتار ہے جو تری زلف کا وہ ہر قید سے فارغ البال ہے اٹھا روند ڈالے اک عالم کے دل بھلا شوخ یہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں

    آوے خزاں چمن کی طرف گر میں رو کروں غنچہ کرے گلوں کو صبا گر میں بو کروں آزردہ اس چمن میں ہوں مانند برگ خشک چھیڑے جو ٹک نسیم مجھے سو غلو کروں آنکھوں سے جائے اشک گریں گل چمن چمن منظور گریہ گر میں ترا رنگ و بو کروں آیا ہوں پارہ دوزئی دل سے نپٹ بتنگ ایسے پھٹے ہوئے کو میں کب تک رفو ...

    مزید پڑھیے

    لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں

    لائق وفا کے خلق و سزائے جفا ہوں میں جتنے ہیں یاں سو نیک ہیں جو کچھ برا ہوں میں جا ہے کہ ہوں یہ لوگ ترے پاس اس جگہ کب قابل عنایت و مہر و وفا ہوں میں مجھ کو بتاں کی دید سے مت منع کر کہ شیخ کیا جانے اس لباس میں کیا دیکھتا ہوں میں آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی سرکار کی نظر کو تو ...

    مزید پڑھیے

    شب جو دل بیقرار تھا کیا تھا

    شب جو دل بیقرار تھا کیا تھا کسی کا انتظار تھا کیا تھا چشم در پر تھی صبح تک شاید کچھ کسی سے قرار تھا کیا تھا مدت عمر جس کا نام ہے آہ برق تھی یا شرار تھا کیا تھا دیکھ مجھ کو جو بزم سے تو اٹھا کچھ تجھے مجھ سے عار تھا کیا تھا پھر گئی وہ نگہ جو یوں محرم سیل تھی یا کٹار تھا کیا تھا رات ...

    مزید پڑھیے

    نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں

    نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں کبھو جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں میں مر چکا ہوں پہ تیرے ہی دیکھنے کے لیے حباب وار تنک دم رہا ہے آنکھوں میں موافقت کی بہت شہریوں سے میں لیکن وہی غزال ابھی رم رہا ہے آنکھوں میں وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ جگر سے اشک نکل تھم رہا ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا

    میں خوب اہل جہاں دیکھے اور جہاں دیکھا پر آشنا کوئی دیکھا نہ مہرباں دیکھا ہمیشہ منع تو کرتا تھا باغ سے ہم کو کچھ حال اب گل و گلشن کا باغباں دیکھا طلب کمال کی کوئی نہ کیجیو زنہار کہ میں یہ کر کے فضولی بہت زیاں دیکھا نہ جانے کون سی ساعت چمن سے بچھڑے تھے کہ آنکھ بھر کے نہ پھر سوئے ...

    مزید پڑھیے

    لے چکو دل جو نگہ کو تو یہ دشوار نہیں

    لے چکو دل جو نگہ کو تو یہ دشوار نہیں لیک تم دیکھتے پھرتے ہو خریدار نہیں گو کہ مشرف بہ ہلاکت ہوں میں اس بار پہ شوخ تو عیادت کو گر آوے تو کچھ آزار نہیں تنگ تو ہم کو تو اے جیب کرے ہے لیکن اٹھ گیا ہاتھ گر اپنا تو پھر اک تار نہیں گو سبک مجھ کو زمانے نے کیا ہے لیکن یہ بھی ہے شکر کسی دل کا ...

    مزید پڑھیے

    دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف

    دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف کرتا رہا تو اپنی ہی بیداد کی طرف جس گل نے سن کے نالۂ بلبل اڑا دیا رکھتا ہے گوش کب مری فریاد کی طرف موند اے پر شکستہ نہ چاک قفس کہ ہم ٹک یاں کو دیکھ لیتے ہیں صیاد کی طرف کہتے ہیں گریہ خانۂ دل کر چکا خراب آتا ہے چشم اب تری بنیاد کی طرف خسرو سے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    مرا جی گو تجھے پیارا نہیں ہے

    مرا جی گو تجھے پیارا نہیں ہے پر اتنا بھی تو ناکارا نہیں ہے ہیں اکثر خوب رو اوباش لیکن کوئی تجھ سا تو آوارا نہیں ہے جو دل لے کر ہوئے منکر تم اس طرح میاں ہم نے بھی کچھ ہارا نہیں ہے ہزاروں آرزو دل میں گرہ ہے پہ کہنے کا ہمیں یارا نہیں ہے نہ مرنے دیتے ہیں قائمؔ کو لیکن خداوندی سے کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5