Qayem Chaandpuri

قائم چاندپوری

اٹھارہویں صدی کے ممتاز شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر

Prominent 18th century poet, contemporary of Mir Taqi Mir.

قائم چاندپوری کی غزل

    دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا

    دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا بندہ خانہ میں پھر کب آئیے گا لگ چلی ہی سی ہے ابھی تو خیال ڈھب چڑھے گا تو کچھ ڈھبائیے گا ایک بوسہ پہ دین و دل تو لیا اور کتنا مجھے دبائیے گا جا چکے ہم جب آپ سے پیارے کیوں نہ اس راہ سے اب آئیے گا ہم بھی ملا سے کچھ کریں گے شروع آپ کس وقت مکتب آئیے ...

    مزید پڑھیے

    کل اے آشوب نالہ آج نہیں

    کل اے آشوب نالہ آج نہیں آج ہنگامہ پر مزاج نہیں غیر اس کے کہ خوب روئیے اور غم دل کا کوئی علاج نہیں اب بھی قیمت ہے دل کی گوشۂ چشم اتنی یہ جنس بے رواج نہیں شہ کو بھی چاہئے ہے گور و کفن کون ہے جس کو احتیاج نہیں دل سے بس ہاتھ اٹھا تو اب اے عشق دہ ویران پر خراج نہیں دو جہاں بھی ملیں تو ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اک حباب کا کیوں چھوڑتے ہو درد تہ جام مے کشو ذرہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جام مے رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا اس دشت ...

    مزید پڑھیے

    ترک وفا گرچہ صداقت نہیں

    ترک وفا گرچہ صداقت نہیں پر یہ ستم سہنے کی طاقت نہیں ترک کر اپنا بھی کہ اس راہ میں ہر کوئی شایان رفاقت نہیں کوئی دوا مجھ سے کی کرتا ہے لیک اب کے طبیبوں میں حذاقت نہیں کسب ہنر کر نہ کہ اس وقت میں اس سے بڑی اور حماقت نہیں نام ہی قائمؔ کا گیا ہے نکل ورنہ کچھ اتنی تو لیاقت نہیں

    مزید پڑھیے

    کدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں

    کدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں کون اس تیغ کا ہلاک نہیں مثل آئینہ آبرو ہے تو دیکھ ورنہ گھر میں تو اپنے خاک نہیں دے ہے ہم چشمی اس سے پھر خورشید کیا بھلا اس کے منہ پہ ناک نہیں چاہیں توبہ کی چھاؤں ہم زاہد کیا کہیں دار بست تاک نہیں خبر غیب خطرۂ دل ہے ورنہ تا عرش اپنی ڈاک نہیں جس مصلے ...

    مزید پڑھیے

    دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا

    دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا صدقے میں کچھ تو بول تو کیا تجھ پہ حال تھا چھوٹا ترا مریض اگر مر گیا کہ شوخ جو دم تھا زندگی کا سو اس پر وبال تھا ناخن ترے کی مہندی سے تنہا نہیں ہیں داغ چندے شفق سے نعل در آتش ہلال تھا اس سوچ سے کھلی ہے حقیقت کہ ایک عمر مکھی کی فرج و شیخ کی داڑھی کا ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں

    ہر اک صورت میں تجھ کو جانتے ہیں ہم اس بہروپ کو پہچانتے ہیں ہے قادر تو خدا لیکن بتاں بھی وہ کر چکتے ہیں جو کچھ ٹھانتے ہیں تو ناصح مان یا مت مان لیکن تری باتیں کوئی ہم جانتے ہیں گئے گوہر کے تاجر جس طرف سے ہم ان رستوں کی ماٹی چھانتے ہیں نہ سنبھلا آسماں سے عشق کا بوجھ ہمیں ہیں جو یہ ...

    مزید پڑھیے

    واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر

    واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر جز یہ کہ تری رضا ہے بہتر دیتا ہے وہی طبیب حاذق بیمار کو جو دوا ہے بہتر کس سے کہوں حال بد کہ وہ آپ کچھ مجھ سے بھی جانتا ہے بہتر آئینہ ہو یا تو آب لیکن ہر شکل میں اک صفا ہے بہتر چرچے سے اگر ہو صحبت غم شادی سے ہزار جا ہے بہتر لے نالہ خبر کہ زخم دل کا پھر ...

    مزید پڑھیے

    نہ بیم غم ہے نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں

    نہ بیم غم ہے نے شادی کی ہم امید کرتے ہیں قلندر ہیں جو پیش آ جائے سب کچھ دید کرتے ہیں کہاں کا غرۂ شوال کیسا عشرہ ذی حجہ ہمیں ہاتھ آئے مے جس دن ہم اس دن عید کرتے ہیں مزاج خس ہے اہل عشق کا جلنے کے عالم میں جلاتا ہے جو ان کو اس کی یہ تائید کرتے ہیں ارادہ تو نہ تھا اپنا بھی جانے کا ترے ...

    مزید پڑھیے

    پھوٹی بھلی وہ آنکھ جو آنسو سے تر نہیں

    پھوٹی بھلی وہ آنکھ جو آنسو سے تر نہیں کس کام ہے وہ سیپ کہ جس میں گہر نہیں منعم ہے کیا کہ جس سے کوئی بہرہ ور نہیں کس کام کا وہ نخل کہ جس میں ثمر نہیں بندہ ہوں بے خودی کا میں اس مست کی جسے آشوب روز حشر سے اصلاً خبر نہیں یارب خلش سے آہ کی ہو جو نہ بہرہ مند جس دل کا تکیہ گاہ سر نیشتر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5