مجھ کو تو شراب سے مستی ہے اور
مجھ کو تو شراب سے مستی ہے اور تن قید کے چھوٹنے سے ہستی ہے اور قاسم علی دیر اور حرم کے اندر حق اور ہے شوق بت پرستی ہے اور
مجھ کو تو شراب سے مستی ہے اور تن قید کے چھوٹنے سے ہستی ہے اور قاسم علی دیر اور حرم کے اندر حق اور ہے شوق بت پرستی ہے اور
کسی کا راغ مطالب کسی کا باغ مراد عوام خلق کو منظور ہے چراغ مراد نہیں ہے اپنی مراد آفریدیؔ اس کے سوا اگرچہ ہے بھی تو ساقی و یار ایاغ مراد
جس طرح کوچے میں تیرے پھرتے ہیں ہم بر طرف اے ستم گاری ہماری طرز ہیں کم بر طرف دل سے افریدیؔ کے اپنے حسن کے صدقے سے یار کیجئے گا دو جہاں کے جتنے ہیں غم بر طرف
خط آزادی لکھا تھا شوخ نے فردا غلط دل میں رکھتا اور کچھ ظاہر لکھا انشا غلط آفریدیؔ جو ملے چھاتی لگا آنکھوں میں رکھ دستخط اس کا اگر املا ہے سرتاپا غلط
رکھتا ہے اپنے حسن پر وہ دل ربا گھمنڈ جیسے عبادت اپنے اوپر پارسا گھمنڈ شایاں ہے اس کے حسن پر اس کا غرور بھی افریدیؔ تو نہ کیجیو بہر خدا گھمنڈ