Qamar Jalalvi

قمر جلالوی

پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبول عام شعروں کے خالق

Famous indian poet who migrated to Pakistan. He earned polularity with many of his oft-quoted shers.

قمر جلالوی کی غزل

    انہیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں

    انہیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں وہ شاخ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں تو کیا اب عید ملنے کو فرشتے آئے جاتے ہیں وہ ہنس کر کہہ رہے ہیں مجھ سے سن کر غیر کے شکوے یہ کب کب کے فسانے عید میں دہرائے جاتے ہیں نہ چھیڑ اتنا ...

    مزید پڑھیے

    دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لئے ہوئے

    دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لئے ہوئے دل کو ہے درد درد کو ہے دل لئے ہوئے دیکھا خدا پہ چھوڑ کے کشتی کو ناخدا جیسے خود آ گیا کوئی ساحل لئے ہوئے دیکھو ہمارے صبر کی ہمت نہ ٹوٹ جائے تم رات دن ستاؤ مگر دل لئے ہوئے وہ شب بھی یاد ہے کہ میں پہنچا تھا بزم میں اور تم اٹھے تھے رونق محفل لئے ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں

    چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں اک تماشہ بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں دم نکل جائے گا حسرت سے نہ دیکھ اے ناخدا اب مری قسمت پہ کشتی چھوڑ دے منجدھار میں دیکھ بھی آ بات کہنے کے لئے ہو جائے گی صرف گنتی کی ہیں سانسیں اب ترے بیمار میں فصل گل میں کس قدر منحوس ہے رونا مرا میں نے جب ...

    مزید پڑھیے

    سرخیاں کیوں ڈھونڈھ کر لاؤں فسانے کے لئے

    سرخیاں کیوں ڈھونڈھ کر لاؤں فسانے کے لئے بس تمہارا نام کافی ہے زمانے کے لئے موجیں ساحل سے ہٹاتی ہیں حبابوں کا ہجوم وہ چلے آئے ہیں ساحل پر نہانے کے لئے سوچتا ہوں اب کہیں بجلی گری تو کیوں گری تنکے لایا تھا کہاں سے آشیانے کے لئے چھوڑ کر بستی یہ دیوانے کہاں سے آ گئے دشت کی بیٹھی ...

    مزید پڑھیے

    لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے

    لحد اور حشر میں یہ فرق کم پائے نہیں جاتے یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے کسی محفل میں بھی ایسے چلن پائے نہیں جاتے کہ بلوائے ہوئے مہمان اٹھوائے نہیں جاتے زمیں پر پاؤں رکھنے دے انہیں اے ناز یکتائی کہ اب نقش قدم ان کے کہیں پائے نہیں جاتے تجھے اے دیدۂ تر فکر کیوں ہے دل کے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں

    کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں جفاؤں کے گلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں مگر محشر کا دن ہے اپنے بیگانے بہت سے ہیں بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں دھری رہ جائے گی پابندیٔ زنداں جو اب ...

    مزید پڑھیے

    یوں تمہارے ناتوان شوق منزل بھر چلے

    یوں تمہارے ناتوان شوق منزل بھر چلے کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے چھوڑ کر بیمار کو یہ کیا قیامت کر چلے دم نکلنے بھی نہ پایا آپ اپنے گھر چلے ہو گیا صیاد برہم اے اسیران قفس بند اب یہ نالہ و فریاد ورنہ پر چلے کس طرح طے کی ہے منزل عشق کی ہم نے نہ پوچھ تھک گئے جب پاؤں تیرا ...

    مزید پڑھیے

    ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ

    ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ عیاں سورج ہوا وقت سحر آہستہ آہستہ چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخ گل کی جنبش پر یہ گلشن ہے ذرا باد سحر آہستہ آہستہ قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں بہار گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ کوئی چھپ جائے گا بیمار شام ہجر کا مرنا پہنچ جائے گی ...

    مزید پڑھیے

    ان کے جاتے ہی یہ وحشت کا اثر دیکھا کئے

    ان کے جاتے ہی یہ وحشت کا اثر دیکھا کئے سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کئے دل کو وہ کیا دیکھتے سوز جگر دیکھا کئے لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کئے ان کی محفل میں انہیں سب رات بھر دیکھا کئے ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کئے تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لئے منہ پھیر ...

    مزید پڑھیے

    کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

    کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے ان سے ہمیں نگاہ کرم کی امید کیا آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4