جب باپ موا تو پھر ہے بیٹا کیا شے
جب باپ موا تو پھر ہے بیٹا کیا شے آگے پیچھے دھریں ہیں سب کے لاشے دنیا ہے قلقؔ کچھ تو یہی کچھ ہے بس ہر چیز ہے نا چیز تو ہر شے لا شے
جب باپ موا تو پھر ہے بیٹا کیا شے آگے پیچھے دھریں ہیں سب کے لاشے دنیا ہے قلقؔ کچھ تو یہی کچھ ہے بس ہر چیز ہے نا چیز تو ہر شے لا شے
اے ابر کہاں تک ترے رستے دیکھیں اس طرح سے دنیا کو ترستے دیکھیں بھولا نہیں بارش کا طریقہ تو اگر آ سامنے ہم بھی تو برستے دیکھیں
ہر روز خوشی ہے شب غم سے پامال خالی کا ہے چاند بعد شہر شوال کس طرح قلقؔ عمر نہ روتے گزرے ہوتا ہے محرم سے شروع ہر سال
اس وقت زمانے میں بہم ایسے ہیں ہر بزم میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے ہیں ہے رند ہزار شیوہ ہر چند قلقؔ ایماں سے اگر پوچھئے کم ایسے ہیں
کس طرح سے گریہ کو نہ ہو طغیانی ہے کشتیٔ دریائے کرم طوفانی عباس کے شانے بھی گرے مشک کے ساتھ اے تشنہ لبی اب تو ہو پانی پانی
گردن کو جھکا دیتا ہے ادنیٰ احسان کس طرح سے دکھلائیں گے منہ نا احسان رزاق ہے تو اور غفورالعصیاں مے دیتا ہے ہم جیسوں کو تیرا احسان
دل سے مجھے آنے کی ہے آن کی آہٹ کیا طالع خفتہ کی گئی نیند اچٹ وہ پردہ نشیں گو کہ نہ آئے لیکن اے چرخ ذرا سامنے سے تو تو ہٹ
دنیا میں قلقؔ کیا ہے سراسر ہے خاک درویش ہے خاک اور تونگر ہے خاک مٹنے کے لیے شکل بنی ہے سب کی جو خاک کی سوغات ہے آخر ہے خاک
مسجد کو دیا چھوڑ ریا کی خاطر کعبے نہیں جاتا تو حیا کی خاطر مے خانے میں جاتا ہوں تو رحمت کے لئے مے پیتا ہوں احسان خدا کی خاطر