یہ شہر بلند عالم بالا سے تھا
یہ شہر بلند عالم بالا سے تھا ہم شکل غرض جنت ماویٰ سے تھا اب کیا ہے اک آبادیٔ ریگستاں ہے دہلی کو شرف قلعۂ معلی سے تھا
یہ شہر بلند عالم بالا سے تھا ہم شکل غرض جنت ماویٰ سے تھا اب کیا ہے اک آبادیٔ ریگستاں ہے دہلی کو شرف قلعۂ معلی سے تھا
شہہ کہتے تھے افسوس نہ کہنا مانے عباس کو وہ گھیر لیا اعدا نے اے کوفیو یہ دست درازی ہیہات باللہ کہ یداللہ کے کاٹے شانے
لو جائیے بس خدا ہمارا حافظ بے یار کا ہے وہی پیارا حافظ کیا رشک مرے دل سے گیا گزرا ہے کس منہ سے کہوں خدا تمہارا حافظ
کس طرح کہوں آ بھی کہیں عذر نہ کر رسوائی ناموس کا ہے کس کو ڈر وہ پردہ نشیں خلوت دل میں کیا آئے امید تو جاتی نہیں دل سے باہر
دل دیر گزاری سے ہے آوند نمک ہر زخم جگر رہتا ہے دل بند نمک یک رو ہے قلقؔ جانتا ہے عادت کو ہر ایک سے یکساں ہوں میں مانند نمک
اے چشم غمیں تیرے عوض روئے کون جی اپنا بھلا میرے لیے کھوئے کون افسانۂ وصل کس سے پوچھوں شب ہجر آپ ہی میں کہوں آپ سنوں سوئے کون
کیا جانیے الفت کا ہے کس سے آغاز جاں پر نہیں ہوتا کوئی اس کا جاں باز حاصل نہیں کچھ دوست کی کوشش سے قلقؔ دشمن کے سوا کوئی نہیں محرم راز
کہتا ہوں خدا لگتی عقیدے کے خلاف ہے تیرا خطاوار سزاوار معاف ہے رحم ہی شایان خدائی تجھ کو انصاف یہی ہے کہ نہ کرنا انصاف
جو جا کے نہ آئے پھر جوانی ہے یہ شے پر حیف نصیب رائیگانی ہے یہ شے کیا جان کی فکر لینی دینی ہے یہ چیز کیا دل کا خیال آنی جانی ہے یہ شے
وہ وقت شباب وہ زمانہ نہ رہا وہ نشہ مستی وہ ترانہ نہ رہا آتا ہے کہانی کا مزہ باتوں میں اب اپنے سوا کوئی فسانہ نہ رہا