خورشید پہ جس وقت زوال آتا ہے
خورشید پہ جس وقت زوال آتا ہے کیوں زیر زمیں چھپ کے چلا جاتا ہے جو داغ تہ خاک ہیں روشن ان سے ہر شب یہ چراغ اپنا جلا جاتا ہے
خورشید پہ جس وقت زوال آتا ہے کیوں زیر زمیں چھپ کے چلا جاتا ہے جو داغ تہ خاک ہیں روشن ان سے ہر شب یہ چراغ اپنا جلا جاتا ہے
یا رب تجھے فکر پائے بندی کیا ہے نا چار کی و نیاز مندی کیا ہے ہے خالقی اور عاشقی ہے اور پوچھ ہم ہی سے درد و درد مندی کیا ہے
دامن سے گل تازہ مہکتے نکلے گلشن سے مرغ گل چہکتے نکلے کیا کہیے قلقؔ کہ صاف کہنا مشکل مے خانے سے کیوں مست بہکتے نکلے
صد حیف کہ مے نوش ہوئے ہم کیسے ابرار سے روپوش ہوئے ہم کیسے کچھ یاں کا خیال ہے نہ واں کا کھٹکا ہوش آتے ہی بے ہوش ہوئے ہم کیسے
ہم کوں ہیں اہتمام کرنے والے ہر کام میں صبح و شام کرنے والے کیا وعدہ و پیغام ہمارے تیرے وہ آپ ہیں اپنا کام کرنے والے
جاں جائے پر امید نہ جائے گی کبھی نیند آنکھ میں آرام نہ پائے گی کبھی غیر آئے گا کیوں خانۂ دل میں تو آ اے پردہ نشیں یاس نہ آئے گی کبھی
دروازے پہ تیرے ہی مروں گا یا رب کیا بیم جہنم نہ ڈروں گا یا رب گستاخیٔ عذر بعد عصیاں معیوب توبہ ہے کہ توبہ نہ کروں گا یا رب
بانو نے کہا قطرہ نہیں شیر کا ہے اور حال برا اصغر دلگیر کا ہے شہہ بولے کہ تم صبر کرو شکر کرو کوثر میں بھی اب فاصلہ اک تیر کا ہے
یاں ہم کو دیا کیا جو وہاں پر ہو نگاہ طاعت سے کچھ امید نہ کچھ خوف گناہ کر فضل ہی اپنا کہ عدالت کیسی آپ ہی تو مدعی ہے آپ ہی ہے گواہ
اے پردہ نشیں سہل ہوا یہ اشکال در پردہ نہیں وصل سے کم تیرا خیال آئینۂ دیدہ کے ادھر پھرتے ہو اس طرف نظر کے ہے طلسمات وصال