محراب و مصلیٰ اور زاہد بھی وہی
محراب و مصلیٰ اور زاہد بھی وہی سجدہ مسجود اور ساجد بھی وہی تکلیف قیامت ہے یہ کس کی خاطر حاکم بھی مدعی بھی شاہد بھی وہی
محراب و مصلیٰ اور زاہد بھی وہی سجدہ مسجود اور ساجد بھی وہی تکلیف قیامت ہے یہ کس کی خاطر حاکم بھی مدعی بھی شاہد بھی وہی
خود رفتہ ہو بدمست ہو کیسا ہے مزاج کل آپ کی کیا وضع تھی کیا رنگ ہے آج دیکھا ہے اگر خواب زلیخا سنبھلو رعنائی یوسف کی کنواں ہے معراج
کیا ذکر وفا جفا کسی سے نہ بنی گر دوست ملا تو مدعی سے نہ بنی آخر کو قلقؔ نے زہر کھایا ناچار اب کس سے بنی جب اپنے جی سے نہ بنی
کس واسطے دی تھیں ہمیں یا رب آنکھیں واللہ کہ بے دید ہیں بے ڈھب آنکھیں دانائی ہے نادان تو بینائی کور کب آپ کو دیکھا کہ مندیں جب آنکھیں
مسجد میں نہ جا واں نہیں ہونے کا نباہ بے وجہ خصوصیت بھی ہے عصیاں کی گواہ مے خانے میں صدیق مسلمان ہیں گبر کیا جوش محبت ہے کہ اللہ اللہ
ہے مہر کرم گناہ گاری میری امضائے نوید امیدواری میری کر رحم نہ انصاف کہ سب جانتے ہیں رحمت تیری تباہ کاری میری
دنیا کا تمام کارخانہ ہے عبث اس کشت عبث کا دانہ دانہ ہے عبث اک حرف غلط ہے بلکہ یہ بھی ہے غلط ہر ذکر عبث ہے ہر فسانہ ہے عبث
جاہل کی ہے میراث قلقؔ تخت و تاج کامل ہے سدا بے ہنروں کا محتاج ابلیس کا عصیاں نہیں جز کبر کمال بے قدریٔ فن کا ہے ازل ہی سے رواج
مرمر کے پئے رنج و بلا جیتے ہیں ناراض ہیں راضی بہ رضا جیتے ہیں ارمان مجسم ہے سراپا اپنا جی مار کے جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں
اس بزم سے میدان میں جانا ہوگا ایواں سے بیابان میں جانا ہوگا ہشیار ہو تیار ہو زنہار نہ سو کیا جانیے کس آن میں جانا ہوگا