یہ وہم دوئی دل سے جدا کرنا تھا
یہ وہم دوئی دل سے جدا کرنا تھا اس قطرے کو دریا میں فنا کرنا تھا اللہ رے رقابت کہ رقابت سب سے اے جوش خودی خوف خدا کرنا تھا
یہ وہم دوئی دل سے جدا کرنا تھا اس قطرے کو دریا میں فنا کرنا تھا اللہ رے رقابت کہ رقابت سب سے اے جوش خودی خوف خدا کرنا تھا
ہر زخم جگر کھایا ہے دل پر تن کر چھلنی کہ ہوا شکل کلیجا چھن کر پھر دیدۂ وحشی سے نظر ملتی ہے اب خاک مری اڑتی ہے ہرنی بن کر
لازم ہے کہ فکر رخ دلبر چھوڑوں واجب ہے یہی اب کہ مقرر چھوڑوں ناصح نے کیا مجھ کو بھی آخر مجنوں ہوں قید میں جس کی اسے کیوں کر چھوڑوں
تھا آدم خاکی غضب بے زنہار پر موت کے ہاتھوں سے ہوا ہے ناچار سچ ہے قلقؔ انسان ہے کیا کچھ سرکش مر کر بھی تو ہوتا ہے یہ کاندھوں پہ سوار
دل جوش معاصی سے نہ کیوں خوں ہو جائے کعبہ بھی مرے طوف سے مجنوں ہو جائے بوسے میں اگر دوں حجر اسود پر لب ہائے مے آلود سے گل گوں ہو جائے
افسوس تری وضع پہ آتا ہے قلقؔ انداز ترا جی کو کڑھاتا ہے قلقؔ تو دولت حسن ہے کہ نقد نا اہل کیوں ہاتھ سے اپنے آپ جاتا ہے قلقؔ
آلودہ خیالات میں تیرے ہوں مدام طاعت سے غرض نہ کچھ عبادت سے کام ہر لحظہ ہوس بوسے کی ہر دم بس بس الفت کے تقاضے کو نہ کچھ صبح نہ شام
ہے دوستیٔ آل عبا رونے سے ہے درجۂ والاۓ ولا رونے سے تو دل کا غبار اپنے قلقؔ رو کے نکال یہ آئنہ ہوتا ہے صفا رونے سے
گاہے تو کرم ہم پہ بھی فرمائیں آپ آ جائیں یہاں بھی جو کہیں جائیں آپ دکھلائیے تو چاہنے والوں کی شکل غیروں ہی کے ہم راہ کبھی آئیں آپ
کیا لینے سوئے جاہ و حشم جائیں گے کیا دینے سر کوئے کرم جائیں گے آخر تو کہیں دیر کی نکلے گی راہ جائیں گے تو کعبے ہی کو ہم جائیں گے