Qalaq Merathi

قلق میرٹھی

  • 1832/3 - 1880

قلق میرٹھی کی غزل

    ان سے کہا کہ صدق محبت مگر دروغ

    ان سے کہا کہ صدق محبت مگر دروغ کہنے لگے یہ سچ ہے کہ ہر طرح پر دروغ دزد حنا پہ دزدیٔ جاں کا ہے اتہام خون دل و جگر سر تیغ نظر دروغ آنا صباح حشر کا شام فراق جھوٹ اڑ جانا شور نالہ سے رنگ سحر دروغ ہر لحظہ تیغ جاننا ابرو کا افتراک ہر لمحہ ذوق قتل میں سر ہاتھ پر دروغ سر سنگ در سے پھوڑنا ...

    مزید پڑھیے

    دوستی اس کی دشمنی ہی سہی

    دوستی اس کی دشمنی ہی سہی دوست تو ہو وہ مدعی ہی سہی مستی و بحث عذر کفارہ توبہ سے توبہ ہم نے کی ہی سہی ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی محتسب ختم کیجئے حجت پی ہے تو خیر ہم نے پی ہی سہی حیف خمیاز ہائے حسرت و ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے

    کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے خدا جانے یہ کیا آفت ہے آفت آ ہی جاتی ہے وہ کیسے ہی چلیں تھم تھم قیامت آ ہی جاتی ہے بچے کوئی کسی ڈھب سے پہ شامت آ ہی جاتی ہے ستم کر کے ستم گر کی نظر نیچی ہی رہتی ہے برائی پھر برائی ہے ندامت آ ہی جاتی ہے زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزہ ...

    مزید پڑھیے

    اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم

    اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم کیا حال ہوگا اس کا جس دل میں خار ہیں ہم ہر چند دل میں تیرے ظالم غبار ہیں ہم کتنے دبے ہوئے ہیں کیا خاکسار ہیں ہم کیا جانے کیا دکھائے کم بخت راز دشمن بے اختیار ہو تم اور بے قرار ہیں ہم واں شوخیوں نے مارے ناکام کیسے کیسے یاں سادگی سے کیا کیا ...

    مزید پڑھیے

    وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے

    وہی وعدہ ہے وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے وہی چشم ہے وہی راہ ہے وہی صبح ہے وہی شام ہے وہی خستہ حال خراب ہے وہی خواب کشتۂ خواب ہے وہی زندگی کو جواب ہے نہ سلام ہے نہ پیام ہے وہی جوش نالہ و آہ میں وہی شعلہ جان تباہ میں وہی برق یاس نگاہ میں جو خیال ہے سو وہ خام ہے وہی خواب و خور کی ...

    مزید پڑھیے

    محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

    محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا جو ہو سکتا ہے وہ بھی آدمی سے ہو نہیں سکتا یہ کہنا ہے تو کیا کہنا کہ کہتے کہتے رک جانا بیان حسرت دل بھی تو جی سے ہو نہیں سکتا اچٹتی سی نگاہیں کب جگر کے پار ہوتی ہیں کرو خوں دوست بن کر دشمنی سے ہو نہیں سکتا ہمیں کیوں دل دیا اور دل ربائی ان ...

    مزید پڑھیے

    تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو

    تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو یا رب کہیں وہ غفلت فریاد بے کساں ہو یا قہر ہے وہ شوخی یا پردہ ہے نظر کا دل میں تو اس کا گھر ہو اور آنکھ سے نہاں ہو یہ شور بھر رہا ہے فریاد کا جہاں میں جو بات لب پہ آئی الٹی پھری فغاں ہو کس کس دعا کو مانگیں کیا کیا ہوس نکالیں اک جاں کدھر کدھر ہو ...

    مزید پڑھیے

    نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک

    نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک سراغ خوں اب اس کا مر کے جائے خاک گردن تک سر و ساماں سے ہیں یہ بے سر و سامانیاں اپنی کہ ہے جوش جنوں میرا گریباں گیر دامن تک نہ کی غفلت سے قدر دل عبث الزام دل بر پر متاع خفتہ کے جانے کے سو رستے ہیں رہزن تک یہ حیلہ بھی نہیں کم موت کے آنے کو گر ...

    مزید پڑھیے

    ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق

    ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق کہ محبت کی انتہا ہے عشق لو زلیخا کو کب ہوا ہے عشق کس قدر طاقت آزما ہے عشق فلک و مدعی و یار و اجل سب بھلے ہیں مگر برا ہے عشق دیکھیے اس کا ہوگا کیا انجام اب خدا سے ہمیں ہوا ہے عشق ہو چکا ہم سے کچھ جو ہونا تھا تو نے یہ حال کیا کیا ہے عشق وامق و قیس و کوہ کن ...

    مزید پڑھیے

    تیرے در پر مقام رکھتے ہیں

    تیرے در پر مقام رکھتے ہیں قصد دار السلام رکھتے ہیں ابتدا اپنی انتہا سے پرے ناتمامی تمام رکھتے ہیں آسماں سے کسے امید نجات آشیاں زیر دام رکھتے ہیں ایک یوسف کہ ساتھ غربت میں ایسے لاکھوں غلام رکھتے ہیں بے بہا شے ہوں میں کہ وہ مجھ کو ناخریدہ غلام رکھتے ہیں سب کی سنتے ہیں کرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5