Qalaq Merathi

قلق میرٹھی

  • 1832/3 - 1880

قلق میرٹھی کے تمام مواد

41 غزل (Ghazal)

    نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا

    نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا ہو کے دشمن بھی آشنا نہ رہا بے وفا جان و مال بے صرفہ کیا رہا جب کہ دل ربا نہ رہا سبھی اغیار ہیں سبھی عاشق اعتماد اس کا ایک جا نہ رہا خاک تھا جس چمن کی رنگ ارم پتے پتے کا واں پتا نہ رہا وصل میں کیا وصال مشکل تھا یاد پر روز ہجر کا نہ رہا خط مرا واں گیا گیا نہ ...

    مزید پڑھیے

    تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق

    تجھے کل ہی سے نہیں بے کلی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق تری عمر ساری یوں ہی کٹی تو ہمیشہ یوں ہی جیا قلقؔ ہوا دل کے جانے کا اب یقیں کہ وہ درد بر میں مرے نہیں نہ وہ اضطراب قضا کہیں نہ وہ حشر خیز بلا قلقؔ مجھے حشر کر دیا بیٹھنا مجھے قہر ہو گیا ٹھہرنا ہے بسان صبر گریز پا نہیں غم گسار مرا ...

    مزید پڑھیے

    خود دیکھ خودی کو او خود آرا

    خود دیکھ خودی کو او خود آرا پہچان خدا کو بھی خدا را ترچھی یہ نگاہ ہے کہ آرا ہر جزو جگر ہے پارا پارا دیکھیں گے بتوں کی ہم کجی کو سیدھا ہے اگر خدا ہمارا کیوں موت کے آسرے پہ جیتے اے زیست ہمیں تو تو نے مارا اللہ رے دل کی بے قراری کھاتا ہی نہیں کہیں سہارا جاں دینی ہے میری آزمائش دل ...

    مزید پڑھیے

    اے ستم آزما جفا کب تک

    اے ستم آزما جفا کب تک کشتۂ زندگی وفا کب تک گرمیٔ کوشش جفا کب تک دعویٔ شہرت وفا کب تک اے دل زہد خو ریا کب تک نامرادانہ مدعا کب تک ایک میں مل گیا خدا مارا یوں نباہے گا دوسرا کب تک امتحاں پر یہ امتحاں تا چند آزما آزمائے گا کب تک حسرت آئے گی دم میں سو سو بار اے ہوس شور مرحبا کب ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں

    ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں اے وہ سب کچھ ہی سہی عشق مگر کچھ بھی نہیں تم کو فریاد ستم کش کا خطر کچھ بھی نہیں کچھ تو الفت کا اثر ہے کہ اثر کچھ بھی نہیں عافیت ایک اور آزار ہزاروں اس میں جس کو کچھ سود نہیں اس کو ضرر کچھ بھی نہیں خلوت راز میں کیا کام ہے ہنگامے کا ہے ...

    مزید پڑھیے

تمام

49 رباعی (Rubaai)

تمام